تحریر : مناہل فاطمہ، کراچی ثنا چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے اور سب سے بڑی ہونے کے ناطے بہت لاڈلی بھی اپنے اماں بابا کی آنکھ کا تارا تھی۔ نازک صنف مخمل سے بھی نازک بدن تھا۔ خوبصورتی کے ساتھ حسن و اخلاق کی مالک بہت چھوٹی سی عمر میں بھی بہت حساس اور سمجھدار تھی۔چھوٹے بھائیوں سے بہت پیار کرتی تھی۔ اپنے اماں ابا میں اس کی جان تھی۔ایک شام سرمئی بادل اپنی چادر اوڑھے ہوئے تھے شام ڈھلنے کو تھی م وسم گرج برس رہا تھا۔
ثنا اسی دوران سیڑھیوں سے اترتے ہوئے سر چکرانے سے گرتی ہوئی نیچے آکر گری۔اس کے والدین جو چارپائی پہ ہی بیٹھے تھے وہاں سے چیختے ہوئے ثنا کو اٹھاکر چارپائی پہ لٹایا اور قریبی کلینک لے گئے وہاں ڈاکٹر نے بہت کوشش کے بعد مشورہ دیا آپ اس کو کسی اچھے بڑے اسپتال لے جائیں فوری طور پروہ بیچارے اپنی بیٹی کو لے کر اسپتال پہنچے ایمرجنسی میں اس کا ٹریٹمنٹ ہونے لگا۔کچھ دیر بعد ہوش آنے لگا تو ڈاکٹر نے سارہ اور عباس کو تسلی دیتے ہوئے کہا اب آپ کی بیٹی خطرہ سے باہر ہے. مگر اس کو ایڈمٹ کرنا پڑے گا تاکہ مکمل ٹریٹمنٹ ہو سکے اور کچھ ٹیسٹ وغیرہ ہونگے جس سے ہم بے ہوشی کی اصل وجہ تک پہنچ سکتے ہیں۔
ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب ہماری بٹیا ٹھیک ہوجائے بس، ثنا کے تمام ٹیسٹ کی رپورٹ آچکی تھی کچھ خاص وجہ نہیں ۔خون کی کمی کی وجہ سے ایسا ہوا، اور بل بناتے ہوئے ڈاکٹر صالح نے عباس کے ہاتھ میں پرچی تھماتے ہوئے کہا کاؤنٹر پہ بل پے کر دیں پھر آپ کی بیٹی کو ڈسچارج کیا جائے گا۔ڈاکٹر صاحب میں غریب بندہ ہوں اتنے پیسے کہاں سے لاؤں کچھ رعایت کردیں۔’’کیا؟‘‘ ڈاکٹر اٹھ کھڑا ہوا ’’یہ کوئی ہول سیل کی دکان نہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے اپنے روم تک چلا گیا۔
Poverty
عباس پہ جیسے سکتہ طاری ہوگیا ،آنکھیں نم دیدہ تھی وہ کیا کرتا کہاں سے پچاس ہزار لاتا جو دن کو مزوری کرتا تو شام کو ان کا چولہا جلتا۔بٹیا تو فکر نہ کر کوئی بندوبست کرتا ہوں سب ٹھیک ہوجائے گا۔پھر ہماری رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں گی تیرے گھر آنے سے،ثنا چپ تھی اس سے باپ کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی جب اس کا باپ روانہ ہوا تو وہ اٹھ کر اپنی چادر اوڑھ کر ڈاکٹر کے کمرے تک گئی ڈاکٹر صالح نے اسے دیکھتے ہی سوالیہ نظروں سے دیکھا ، جیسے وہ بھانپ گیا ،ثنا نے اپنی چادر اتار کر ڈاکٹر کے قدموں میں پھینک دی اور بے بسی سے کہا اپنی صحت کی قیمت میں خود ادا کرنے آئی ہوں۔ کون انکار کرسکتا تھا؟؟؟سولہ سال کی خوبصورت لڑکی اپنی مجبوریوں سے ہار کر اس کے قدموں میں اپنی عزت کا سودا کرنے چلی تھی۔۔۔۔شام کو جب باپ نے اپنی بیٹی کو دیکھا وہ چادر میں لپٹی اسی کے انتظار میں کھڑی تھی بیٹی کل تک بندوبست ہوجائے گا آج ادھر ہی رکنا پڑے گا نہیں بابا اب اس کی ضرورت نہیں مگر ڈاکٹر نے تو کہا پچاس ھزار کا بل ؟؟ ’’ہاں بابا وہ بل چکا دیا ہے‘‘اس نے اپنے بابا کی کلائی پکڑی اور گھر کو چل دی۔