APC بلونیا کے انقعاد کے معاملے پر اچانک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ھے۔ API بریشیا نے الگ مورچہ لگا کر طبل جنگ بچا رھا ھے۔ دن رات متحاربین ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رھے ہیں۔ دشنام اندازی اور الزام تراشی کے زیریلے تیروں کے ذریعے مخالفین کے سینے چھلنی کئے جا رھے ہیں۔ 10 نومبر کو یکجھتی کا الاؤ روشن کرنے لے لئے جس پاکستانی کمیونٹی کو مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا ھونے کی دعوت دی گئی تھی وہ بیچاری لاوارث شدید صدمے سے دو چار دور کھڑی انگشت بدنداں ھے۔ اٹلی میں پاکستانیوں کی پھلی نسل تنا آور درخت بن چکی ہیں لیکن اُس پر پھل نہیں لگا، وجی صاف ھے نہ اُن کو مناسب ماحول ملا نہ رھنمائی۔ یوں علم و ھنر کے گوھر سے مرحوم رھے۔ کچھ یورو کی غلامی گردش میں گم ھوئے اور جو بچ رھے وہ ادھوری تعلیم کے باعث نئے نئے شعبوں کی تلاش اور اعلٰی اسامیوں سے کوسوں دور جا پڑے۔
APC بلونیا منعقد کرانے کا آئیڈیا اسی تناظر میں پروان چڑھا تھا۔ آل پاکستان پارٹیز کانفرنس بلونیا کے ایجنڈے کی سب سے اھم شق یہ ھے کہ اٹلی کے پاکستانیوں کی تمام سماجی، سیاسی اور مذھبی تنظیمیں ایک مشترکہ تنظیم میں ختم ھو جائیں اور اٹلی میں بسنے والے پاکستانی تارکین وطن کے حقوق کے لئے لائحہ عمل طے کریں۔ عمونے مسطورے، قونصلیت، ایمبیسی سمیت پاکستان میں درپیش مسائل کے لئے علمی و عملی راھنمائی بھم پھنچائیں۔ اس اقدام سے پورے ملک میں پھیلے ھوئے پاکستانیوں میں قربت پڑے گی، سماجی و سیاسی شعور بیدار ھو گا اور پاکستانیوں کی اچھی لیڈر شپ سامنے آئے گی۔
یھی لیڈر شپ صوبائی اور ملکی سطح پر منتخب ھو کر پاکستانی کمیونٹی کے متنوع مسائل حل کروائے گی۔ یورپ کے دیگر ملکوں میں پاکستانیوں نے اچھی لیڈر شپ کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کیے ہیں اور اپنی نسل کو اعلی تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے بذی پڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگر APC اتنے اعلی اقدام پر عمل پیرا ھونے کا ارادہ رکھتی ھے تو اس کی راھ میں روڑے کیوں اٹکائے جا رھے ہیں، رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جا رھی ہیں؟ API پریشیا نے 33 پارٹیوں کا ایک اجلاس منعقد کر کے آل پارٹیز کانفرنس کی حیثیت (Credebility) کے حوالے سے ووٹنگ کروائی ھے ووٹنگ میں 26 پارٹیوں نے نہیں جبکہ 7 پارٹیوں نے ھان میں رائے دی۔ اجلاس میں الزام وائد کیا گیا کہ APC کا مقصد ذاتی تشھیر اور اٹلی کی لیڈر شپ کا حصول ھے۔
Italy
اٹلی کے پاکستانیوں کے مسائل اس قدر گھنمبیر ہیں کہ آل پارٹی کانفرنس بلانی پڑ جائے۔ اٹلی کی پاکستانی کمیونٹی با شعور ہے، بریشیا کی پاکستانی کمیونٹی کے کردار کو فراموش کر کے انتشار کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جا رھی ھے APC رھنماؤں کی نیت ٹھیک نہیں۔ انھیں چایئے یہ تھا کہ اٹلی کے تمام شھروں کی تنظیموں سے رابطہ کر کے انھیں اعتماد میں لیتے۔ باھمی مشاورت سے ایک ایجنڈا مرتب کرتے اور بعد میں تاریخ کا اعلان کرتے۔ API کے پلیٹ فارم پر 33 تنظیموں کو اکھٹا کر لینا اپنی جگہ ایک بڑی کامیابی ھے جس کے لئے API لائق تحسین ھے تاھم API کے پلیٹ فارم سے بعض نمائندوں نے ذاتیات کے حولے سے دوسری طرف کے رھنماؤں کے خلاف جو زبان استعمال کی ھر سطح پر اسکی مذمت ھونی چایئے۔
سوشل میڈیا اور اخباری ویب سائٹوں پر دونوں اچراف سے کی جانے والی تیر اندازی بھی کمیونٹی کی خیر خواھی کی خاطر بند ھونی چایئے۔ جھاں تک API کے پلیٹ فارم سے اکثریتی بنیاد پر APC کے بائیکاٹ کے فیصلے کا تعلق ھے تو یاد رکھنا چایئے اکثریتی فیصلی ضروری تو نہیں کہ درست بھی ھو۔ اپنی حق کی رائے میں دو مثالیں پیش کرنا چاھوں گا۔ گذشتہ روز یورپ کے سینئر صحافی پروفیسر شوکت اعوان مجھے ایک ملک کی تنظیموں کے بارے میں بتائے ہوئے فرما رہے تھے کہ وہ اس ملک میں تقریباً 100 تنظیمیں ہیں اور تنظیموں کی کیفیت یوں ہے کہ ون پارٹی ون ہیں اب اُن کے دائرہ کار اور اثرورسُوخ کا اندازہ آپ خود لگائیں اور دوسری مثال مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلوص صدر ایوب کی اکثریتی جیت کی ہے۔ عوام اور تاریخ نے اُس کی جیت کا پول کھول دیا تھا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔
APC کا انعقاد دُوراندیشی اور جہدِ مسلسل پر مبنی ہے۔ کانفرنس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے سے پہلے اگر ہم اپنے آپ سے یہ پوچھ سکیں کہ ہمیں اے پی سی پسند نہیں یا اے پی سی کروانے والے تو یوں شاید ہم شرکت یا بائیکاٹ کے حوالے سے بہتر فیصلے کر سکیں گے۔ ذاتی اناء کو پسِ پُشت ڈال کر اور اعتراضات سامنے رکھ کر ان پر گفت و شنید بھی کی جا سکتی ہے۔ آپس میں بھائیوں کی طرح مل بیٹھ کر کسی مشترکہ لائحہ عمل کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ کانفرنس کیلئے نئی تاریخ بھی مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جمہوریت کا اصل حُسن یہ ہے کہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کی جائے۔ APC کانفرنس ایک نئے امکان (POSSIBILTY) کے دروازے پر دستک دینے کے مترادف ہے۔ اے پی سی راہنماؤں کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کون اچھا ہے کون بُرا ہے اسکا فیصلہ کمیونٹی پر چھوڑ دیں۔
روم میں مقیم میرے ایک صحافی دوست اٹلی میں پاکستانی لیڈروں کے حوالے سے کہا کرتے ہیں میں جس لیڈر کی تعریف میں لکھتا ہوں جلد یا بدیر پتا چلتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کیس میں اندر ہو گیا ہے 90 کی دہائی سے لیکر آج تک اٹلی کے خود ساختہ لیڈروں نے کیا کیا گُل کھلائے ہیں اور موجودہ پاکستانی قیادت کس قدر دودھ کی دُہلی ہے۔ اخبارات، ویب سائٹس اور شوشل میڈیا کے جدید اور تیز ترین دور میں مکانوں، گھروں اور ڈیروں میں رہنے والے پاکستانی نوجوان اور مرد و زن خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم سب انسان ہیں ہمارے مابین، سیاسی و سماجی اختلافات ہو سکتے ہیں۔ ان اختلافات کا یہ مطلب نہیں کہ ہم خود کو انسانیت کے مقام سے نیچے گرا دیں۔ اٹلی کی پاکستانی کمیونٹی میں اتفاق وقت کی ضرورت ہے۔ اے پی سی کے حمایتی اور مخالف بے لگام بیان بازی کر کے لوگوں کے سامنے تماشہ نہ بنیں۔