بڑے صاحب سے ایک دردمندانہ اپیل‎

Democracy

Democracy

تحریر : عماد ظفر

وطن عزیز میں پچھلے دو برس سے جو تماشہ جاری ہے اس نے بندہ ناچیز سمیت عوام کے ایک بڑے حصے کو پریشانی کی کیفیت میں مبتلا رکھا۔ صاحب بہادر جو ہمارے ملک میں قومی مفاد کی خاطر بہ امر مجبور سیاسی امور میں دخل اندازی کرتے ہیں تا کہ وطن عزیز کو جمہوری گماشتے بیچ ہی نہ کھائیں ان سے ہی اب آخری امید ہے کہ وہ وطن عزیز کو ہمیشہ کی مانند اس بحرانی کیفیت سے نکالتے ہوئے ایک بار پھر وطن عزیز کو ڈوبنے سے بچا لیں گے۔ ایوب خان نے 1958 میں یحیی خان نے 1969 میں۔ضیاالحق نے 1977 میں اور مشرف نے 1999 میں جس طرح تن من دھن اور جان کی بازی لگا کر ملک کو بچایا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے لیکن کم بخت نان قیمے ،بریانی کھانے والی عوام ہر بار یہ قربانیاں فراموش کر کے ہھر سے ان جمہوری گماشتوں کو ووٹ دے دیتی ہے۔

گو آپ کے منتخب اور پسندیدہ بندے عمران خان پر آپ کے مطالعہ پاکستان کے حقائق پر مبنی نصاب کو پڑھ کر اور آپ کے ہی پسندیدہ ٹی وی چینلوں کو سن کر بیشمار افراد من و ایمان لے آئے ہیں لیکن ابھی بھی عوام کا ایک بڑا حصہ کفر کا مرتکب ہوتے ہوئے آپ کی کہی باتوں پر ایمان نہیں لایا۔بالخصوص پنجاب میں چور، بے ایمان اور غدار نواز شریف کے ووٹ بنک میں تو بالکل کمی نہیں آنے پائ۔ پنجاب جیسے صوبے سے نان قیمے کھانے والی جاہل عوام کے آپ کے خلاف نواز شریف کے تیار کردہ بیانئیے پر ایمان لانے والوں کو دیکھ کر خود پر قابو نہ پایا گیا اور انتہائی دکھ اور یاس کی کیفیت میں اپ کو اس تحریر کے ذریعے مخاطب کرنے کی جسارت کر رہا ہوں. بڑے صاحب گذشتہ ستر برسوں سے وطن عزیز میں ایک عجیب و غریب تماشہ جاری و ساری ہے. ریاست پاکستان جو جناح کے تصور کے نتیجے میں قیام پزیر ہوئی تھی اس کو ووٹوں کے زور پر ہائی جیک کرنے کا عمل کبھی کبھار زور و شور سے سر اٹھانے لگتا ہے. یہ جمہوری گماشتے عوام کے ووٹوں سے منتخب کیا ہوتے ہیں آسمان ہی سر پر اٹھا لیتے ہیں.خود کو حکمران سمجھتے ہوئے ریاست کے اندر ایک ریاست پیدا کر دیتے ہیں.

اگر ریاست کے اندر ریاست کا یہ تصور قائم نہ ہوتا تو پاکستان شاید آج عدم استحکام اور زبوں حالی کا شکار ہرگز نہ نظر آتا.یہ کم بخت ووٹوں پر منتخب ہو کر آتے ہیں اور فیتے کاٹنے کے بجائے خارجہ امور جیسے حساس معاملات پر اپنی کم عقل استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نظریاتی سرحدوں کو از سر نو تشکیل دینے کی باتیں کرتے ہیں اور آئ ایم ایف کے در پر بھیک مانگتے ہیں اور قرضوں کی رقم سے پھر گولہ بارود اور اسلحہ خرمد لیتے ہیں۔ اور پھر ڈان لیکس جیسے سنگین جرم کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ اب تو آصف زرداری جیسا شخص بھی آپ کی شرافت سے فائدہ اٹھا کر آپ پر تنقید کے نشتر برسا رہا ہے۔

عام انتخابات سے قبل جس طرح آپ نے جانفشانی سے چوروں لٹیروں کی جماعت کو قانون کے شکنجے میں لایا اور پھر اس کے بعد جولائ کی کڑی گرمی اور دھوپ میں ساڑھے چار لاکھ جوانوں کو پولنگ سٹیشنوں پر تعینات کروایا وہ ایسی گرانقدر خدمت تھی جسے یہ جاہل عوام سمجھنے میں مکمل ناکام رہی۔ جس طریقے سے آپ نے ملک کے غم میں دکھ اور کرب سے ہلکان ہوتے ہوئے عمران خان جیسا صادق اور امین اور تحریک انصاف جیسی فرشتہ صفت جماعت تیار کی اس کو دیکھنے کے بعد تو عوام کو اٹھتے بیٹھتے آپ کے قصیدے پڑھنے چائیے تھے۔ جس طرح تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے چار ماہ کے اندر ہی ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہاتے ہوئے ریکارڈ کام کئیے اگر اس کو دیکھ کر بھی عوام کا ایک حصہ آپ کی خدمات کو تسلیم نہیں کرتا تو یہ قوم واقعی احسان فراموش ہے۔ جس طریقے سے جمہوری گماشتے دھاندلی اور یکطرفہ احتساب کا تماشہ بپا کر کے دنیا بھر میں وطن عزیز کا تماشہ بنوا رہے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کو عقل کبھی آ ہی نہیں سکتی۔ یہ جمہوری راگ الاپتے افراد ریاست کو دہائیوں سے یرغمال بنا کر اپنی مرضی عوام پر تھوپتے اور مسلط کرتے چلے آئیں ہیں.

یہی وجہ ہے کہ تمام منظر دیکھنے کے بعد سپریم کورٹ نے بھی انہیں “گاڈ فادر” اور “”مافیا” قرار دیا تھا۔ ایک منتخب وزیراعظم ہو کر مودی سے محبت کی پینگیں اڑانے والے اور بھارت سے خود ہی امن مذاکرات کا فیصلہ کرنے والے غدار شخص کے منہ پر آپ نے کرتار پور کاریڈور کھول کر خوب طمانچہ مارا ہے۔ کہاں وہ گیا گزرا مودی کا یار نواز شریف ،جسے صرف شسما سوراج یا مودی لفٹ کرواتے تھے اور کہاں ہمارے صاحب کی شاندار کرتارپور کاریڈور کی تقریب جس میں نوجوت سدھو جیسا سابقہ بین الاقوامی بھارتی کرکٹر گھٹنوں کے بل چل کر شریک ہونے پہنچا۔ اس قدرد ذلیل و رسوا ہو کر بھی نواز لیگ اور نواز شریف نے پسپائی کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے اور نہ ہی نواز شریف عدالتوں کے آگے سر تسلیم۔خم کرنے والے جرنیل مشرف کی مانند سر جھکا کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر رہا ہے۔ .ایسے میں صاحب آپ کا اور مائی لارڈ کا اچھا خاصہ تماشہ بنتا جا رہا ہے اور اب تو پنجاب جیسے صوبے سے بھی آپ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.

ملزم نواز شریف اور اس کی جماعت نے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے جس طرح پہلے ہائ کورٹ سے احتساب عدالت کے فیصلے کو معطل کروا کر آپ کو اور مائ لارڈ کو غلط ثابت کرنے کی سازش کی ہے اور جو راستہ اختیار کیا ہے اس کی سزا صرف اور صرف کوٹھ لکھپت جیل ہی ہو سکتی تھی۔ نواز شریف پر پانامہ اقامہ، العزیزیہ ،فلیگ شپ کے بعد اب غداری کا مقدمہ بھی بنوائیے اور بھٹو کی مانند اسے دار پر چڑھوا دیجئے. نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری. میڈیا کا ایک بڑا حصہ تو ویسے بھی آپ کے ساتھ ہے جو نہیں ہے اس پر غداری یا کفر کے فتوے لگائیے اور سکون سے میڈیا کی تنقید اور شور و غل سے بھی نجات پائیے.

رہی بات عوام کی تو لاپتہ افراد کی چند فائلیں مزید بڑھا کر بآسانی انہیں بھی خاموش کروایا جا سکتا ہے. عزت ماب سابق صدر جنرل مشرف جنہوں نے جارج بش کو صرف ایک فون کال پر ہی ڈھیر کر دیا تھا ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کرنے والے نواز شریف کو پھر سے اٹک قلعے میں بند کیجئے اور پھر سے اس پر منہ سلے سانپ چھوڑ کر اس کی چیخیں سنتے ہوئے اسے اس کی اوقات یاد دلائیے ۔ صاحب بہادر آپ کو اور مائی لارڈ کو خوش و خرم رہنا چائیے باقی عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کی اوقات ہی کیا کہ وہ خوش رہنے کا تصور بھی کریں. ویسے بھی جاہل عوام ووٹ دیتے وقت جب آپ کی نہیں سنتی اور آپ کو اتنی محنت کر کے عمران خان کو مسند اقتدار تک پہنچانا پڑا تو پھر آپ اس کی کیوں سنیں؟ یہ جو جمہوریت اور انصاف کا راگ الاپتے چند سرپھرے ہیں انہیں بکواس کرنے دیجیئے ان کی بکواس پر آخر کان ہی کون دھرتا ہے.

صاحب بہادر میں تو کہتا ہوں اب مستقل حل ڈھونڈتے ہوئے ایک ہی بار جمہوریت اور حق رائے دہی کے الفاظ کو آئین سے ہی حزف کروا دیجئے. اس اقدام میں مائی لارڈ آپ کی بھرپور معاونت بھی کر دیں گے. صاحب بہادر بلکہ ممکن ہوتو نواز شریف کا ٹرائل مشرف کے کسی ہمنوا سے کروائیں تا کہ اس کو عبرت کا نشان بنانے میں کوئی کمی نہ رہ جائے اس کی اولادوں کو ریڈ وارنٹ ایشو کروا کر پاکستان بلوائیے اور دہشت گردی کی عدالتوں میں تیز ترین ٹرائل کر کے انہیں بھی پھانسی چڑھائیے.اگر شریف خاندان گڑھی خدا بخش کے قبرستان سے کچھ سبق نہ سیکھ سکا تو پھر اس کے اندھے پن اور کم عقلی کی سزا یہی ہے کہ پنجاب میں بھی ایک گڑھی خدا بخش بنا دیا جائے. حضور کا اقبال بلند ہو اس ناہنجار مریم نواز کو تو چار بائی چار کی کوٹھڑی میں پھنکوایئے گا جس نے نوجوانوں کے ذہن سے مطالعہ پاکستان جیسی مقدس کتاب کے حقائق کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرتے ہوئے انہیں ووٹ کو عزت دو جیسے بیانئیے کا گرویدہ بنا لیا۔ اس قدر واویلا کر کے اس نے جس طرح آپ کی ساکھ متاثر کی اس کی کم سے کم سزا تو یہ بنتی ہی ہے.

صاحب بہادراس کمی کمین عوام کوبھی آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ جمہوریت اور عوامی نمائندے اس وطن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں کبھی یہ سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ کرواتے ہیں تو کبھی سیاچن اور کارگل جیسے مس ایڈونچر.کبھی ایبٹ آباد آپریشن کرواتے ہیں تو کبھی ججوں کو ہی نظر بند کر دیتے ہیں.ایسی اندھی عوام کو تو بڑے صاحب جوتوں تلے کچل دینا چائیے. چلیے باقی صوبوں میں تو ٹھیک تھا لیکن آپ کے روایتی حمایتی صوبے پنجاب سے بھی اس جاہل عوام نے آپ کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے. اور اس جاہل عوام نے یہ آواز نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کے پراپیگینڈے سے متاثر ہو کر بلند کی ہے. تو بڑے صاحب اب مزید انتظار کروانا بند کیجئے اور ان ناہنجار اور کم عقلوں کے نظام جمہوریت سے ہی جان چھڑوا لیجئے۔ اٹھارویں ترمیم جیسے لغو قانون کو عمران۔خان کے ذریعے ختم کروائیں اور ملک میں صدارتی نظام نافذ کروا کر ان کمی کمین جمہوری ڈرامہ بازوں سے نجات حاصل کیجئے۔

Imad Zafar

Imad Zafar

تحریر : عماد ظفر