ایک زمانہ تھا کہ لوگ پوسٹ مین کو ایماندار اور پوسٹ نظام کو دیانت کا شاہکار سمجھتے تھے۔ لوگ اپنی قیمتی اشیاء ان کے ذریعے دور داز اپنے دوستوں کو بھجتے تھے۔ مگر افسوس جوں جوں وقت گزرتا گیا پوسٹ کا نظام بھی پولیس ، واپڈہ اور دوسرے سرکاری اداروں کی طرح کرپشن کا شکار ہوتا گیا۔ کرپشن کے ڈینگی نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ شکر خدا کا کہ ڈینگی پر تو میاں بردارز نے قابو پالیا مگر کرپشن کا جن بوتل سے باہر دنڈناتا پھرتا ہے۔ اس طاقتور جن نے سبھی سرکاری اداروں کی طرح پوسٹ کے نظام کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اب دن ہو یا رات ڈاکیا کی عید ہوتی۔ ایمانداری کا لقب پانے والے بے ایمانی کا مجسمہ بن بیٹھے ہیں۔ کرپشن کا زہر آلودہ تیر اس ادارے کو کینسر کی طرح لے ڈوبا ہے۔ اور حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ اب تو صر ف آفسر شاہی رہ گئی ہے۔ ادنیٰ سا پوسٹ مین بھی لاکھوں، اپنی جیب میں جمع کرکے اپنے آپ کو موجودہ دور کا جنرل، کرنل سمجھتا ہے۔ حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی اور ان کے کانوں پر ڈر کے مارے مکھی نہیں بیٹھتی۔
ویسے بھی جب سے انگریز نے موبائل متعارف کروایا ہے۔ ڈاکخانوں میں مکھیاں ہی بھنبھناتی ہیں۔ مفت کی تنخواہیں اڑانے والے، سرکاری ای، سی رومز میں خواب خرگوش رہتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کسی کا جاب لیٹر ان کے حوالے کیا جائے تو مطلوبہ بندے تک پہنچتے پہنچتے مہینے لگ جاتے ہیں۔ جب کہ جاب حاصل کرنے کی ڈیٹ گزر جاتی ہے۔ ان کو کیوں کر فکر ہو گی۔ ان کے چولہے تو جلتے رہتے ہیں بلکہ مرغ ہانڈی میں بانگیں دیتے نہیں تھکتے۔بیڑہ غرق تو اس غریب کا ہو جاتا ہے جس کا جاب لیٹر ڈاکخانے میں پوسٹ مین کا منہ دیکھتا رہتا ہے۔ جاب کا متلاشی انٹرویو دینے کے بعد لیٹر کے انتظار میں بیٹھا بیٹھا بوڑھا ہو جاتا ہے۔ لیٹر نہیں پہنچتا۔ عام ڈاک ہو یا رجسٹری آٹھواٰں دن ہی جا ملتی ہے۔ اول تو ڈاکیے کو ایدڑیس پڑھنا نہیں آتا۔ آ بھی جائے تو اس کے بیگ میں پڑے پڑے زنگ آلودہ ضرور ہونے لگتا ہے تب جا کر اس لفافے کی قسمت جاگتی ہے۔ کسی کی ضروری دستیاوازت ہو ں یا کسی طالب علم کی سند، مجال ہے جو وقت پر پہنچ سکیں۔ شکایات کریں تو اُلٹا شکایات کرنے والے کو قصور وار ٹھہرا کر مدعا ختم کر دیا جاتا۔
میرے ایک جاننے والے نے عجیب و غریب واقعہ سنایا کہ کسی کمپنی میں انٹرویوز دے کر آیا، کمپنی کی تمام تر آزمائشوں پر پورا ترا تھا۔ کمپنی نے جاب پر بلوانے کے لئے کہا کہ ہم آپ کو لیٹر سینڈ کرکے بلوا لیں گے۔ بیچارہ لیٹر کا انتظار ہی کرتا رہا۔کمپنی نے تو لیٹر جاری بھی کر دیا۔ مگر بھلا ہو پوسٹ نظام کا اور اس پوسٹ مین کا جس نے وہ لیٹر مقرہ تاریخ سے ڈیرھ ماہ بعد انتظار کرنے والے کے ہاتھوں میں جا تھمایا۔ اب وہ کہاں جاتا کمپنی نے تو کسی اور کو بھی رکھ لیا ہوگا۔ یہ سوچ کر بیچارہ چپ سادھ گیا۔ فریاد کرتا تو کس کے آگے، کون سنتا ہے یہاں۔؟
آپ نے ایک فقرہ سناتو ہوگا کہ (اوپر سے نیچے تک سب ایک ہی گنگا میں نہاتے ہیں)ہماری حکومت، اقتدار میں آنے والے لوگ کرپشن کے دل دیدہ بن جاتے ہیں۔ عوام کو بیوقوف بنا تے ہیں کہ ہم کرپشن کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ بھلا کوئی اپنے ہاتھوں کو ہتھکڑی بھی لگاتا ہے۔ پہلے سنتے تھے کہ فلاں کا قرض میں بال بال ڈوبا ہوا ہے اب تو سیاسی لوگ اور سرکاری ادارے پورے کے پورے کرپشن میں ڈوبے جاتے ہیں۔
Post Office
عم تک نہیں ہوتا،ملکی خزانہ کیسی خالی ہوگیا۔ صدارتی کرسی پر بیٹھنے والے سے لیکر سرکاری چپڑاسی تک سب ملوث ہیں ڈاکخانے والوں کو کوئی پوچھتا نہیں۔ ان کی آفسر شاہی تو دیکھو،دو گھنٹے لیٹ آنے والے ڈیوٹی سے دو گھنٹے پہلے گھر ضرور جاتے ہیں۔ جس نے ان کے خلاف آواز اٹھائی اس نے ہی جیل کی ہوا کھائی۔ کیونکہ ہمیشہ بے گناہ جیلوں میں اور گناہگارایوانوں کی ہوا کھاتے رہتے ہیں۔ سزا سے بچنے کیلئے آپ کو کسی سیاسی پارٹی،یا سیاسی آدمی کی پست پناہی ضرور ہونی چاہیے۔ پھر تو آپ پانچوں گھی میں ڈال سکتے ہیں بلکہ آپ پورے کے پورے گھی میں ڈوب جائیں گے۔
میں پوچھتا ہوں ایسے ادارے کو جاری رکھنے کا کوئی تو فائدہ بتائیں۔ مہینے کے آخر میں ان کے اکاونٹس میں تنخواہیں آجاتی ہیں۔ان بیچاروں کو کیوں کر فکر ہوگی۔ بس مزے سے تنخواہ اڑاو اور اوپر کی کمائی میں لگ جائو، (یہاں کون پوچھتا ہے) اب تو نہ عید کارڈ کا رواج رہاکہ لوگ ایک دوسروں کو عید کارڈ بھیج کر اپنی محبتوں کا ثبوت دیں۔ نہ کسی کا خط آتا جاتا ہے۔ جدید دور ہے اٹھائو موبائل لاکھوں میل دوری پر بیٹھے اپنے عزیز کو وش کر لو، اسے جو اطلاع دینی ہو دے دو۔ دنوں کا کام لمحوں میں سمیٹ آیا ہے۔ اب صرف کوئی سرکاری ڈاکومنٹس ہو ،یا کسی اسکول سے ززلٹ کارڈ، سند بذریعہ ڈاک آتے ہیں۔پھر کیوں نا پوسٹ نظام کو ختم کر دینا چاہیے۔کم از کم عوام کا کچھ روپیہ تو بچ سکتا ہے۔ ویسے بھی اب ڈاک نظام کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہا۔ ان کو بلوں کی وصولی پر لگا دیا گیا ہے۔ مفت کی تنخواہیں اڑانے والوں کے تیور بھی آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ایک نہ ایک دن آسمان سے گرا کھجور میں ضرور اٹک جائے گا۔ بس حکومت کو اس طرف جلد از جلد کوئی حتمی کاروائی کرنی چاہیے۔ایسے نظام کا ختم ہو جانا ہی عوام کے لئے بہتر ہے۔