پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد سردار محمد رضا خان کو آئندہ پانچ سالوں کیلئے ملک کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا گیا ہے۔ان کی تقرری کی منظوری صدر پاکستان نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر دی ۔سردار محمد رضا خان ایک غیر متنازع اور بے داغ شخصیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں ۔محمد رضا خان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور ان کا نا م چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کیلئے پیپلز پارٹی نے تجویز کیا تھا
جس پر تقریبا تمام جماعتوں نے اتفاق کر لیا ،محمد رضا خان 1945ء میں ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے،انہوں نے اپنے کیریر کا آغاز بطور سول جج کیا اس کے بعد اپنی قابلیت کی بنا پر ترقی کرتے ہوئے پشاور ہائی کو رٹ کے چیف جسٹس اور بعد میں سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور 2010 میں بطور سپریم کورٹ جج اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے اور بعد میں وفاقی شریعت کورٹ کے چیف جسٹس مقر ر ہوئے۔
چیف الیکشن کمیشن تعینات ہونے سے پہلے سردار محمد رضا خان وفاقی شریعت کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔ سردار محمد رضا خان کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری کو عوامی اور سیاسی حلقوں میں سراہا جارہا ہے ۔ بادی النظر میں سردار محمد رضا خان ایسے وقت میں ملک کے چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوئے جس وقت ان کے ادارے (الیکشن کمیشن) پر سخت تنقید کی جارہی ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ادارے پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہے ،ایسے وقت میں ان کیلئے یہ عہدہ یقینا پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگا ان کو عہدہ سنبھالتے ہی کئی چیلنجز درپیش ہیں
اس بات کا اظہار انہوں نے خود بھی اپنی تقریب حلف برداری کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کو چیلنجز ہی چیلنجز ہیں۔قارئین!ان کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج تو وہ چار صوبائی الیکشن کمشنر ہیں جو انتہائی متنازع ہو چکے ہیں اور مختلف جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ ان چارو ں ممبران کو فی الفور ان کے عہدے سے ہٹایا جائے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر اس صورت حال کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں ۔قارئین کرام ! کہنے کو تو ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں جمہوریت تو شائد ہی کبھی ہمارے ملک میں رہی ہو ،کیونکہ حقیقی جمہوریت کی بنیاد صاف اور شفاف الیکشن ہوا کرتے ہیں
۔اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں اور ماضی میں ہونے والے الیکشنز کی تاریخ کے اوراق کو پڑھ کر دیکھیں تو ہم پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ پاکستان معرض وجود میں آنے سے لے کرآج تک ہمارے ملک میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ہمیشہ سے ہی ان کی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں ۔اور ان الیکشن کے نتیجے میں ہونے والی ہار یاجیت کو نہ تو پاکستانی عوام نے اور نہ ہی ہماری سیاسی جماعتوں نے کبھی کھلے دل سے تسلیم کیا ۔ جو جیت جاتاہے اس کے نزدیک یہ پاکستان کی تاریخ کا شفاف انتخاب اور جو ہار جاتا ہے
اس کے نزدیک پاکستانی تاریخ کا سب سے کرپٹ اور دھاندلی زدہ الیکشن قرار پاتے ہیں ۔ملک میں ہونے والے الیکشن وہ عام انتخابات ہوں ،ضمنی انتخابات ہوں یا پھر بلدیاتی انتخابات ہوں ان میں دھاندلی کی گونج ہمیشہ ہی سنائی دیتی رہی ہے ۔لیکن کبھی بھی کسی جماعت نے الیکشن کروانے والے اس ادارے (الیکشن کمشن) کو حقیقی معنوں میں خود مختار ادراہ بنانے کی عملی کوشش نہیں کی ،اس ادارے کی اصلاح کے حوالے سے صرف زبانی جمع خرچ ہی کیا جاتارہا ہے ۔2013 کے الیکشن سے پہلے جب ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اس وقت الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے حوالے سے ایک آئینی ترمیم لائی گئی جس کے مظابق آئندہ الیکشن کمشنر کی تقرری حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت سے کی جائے گی۔
Muslim League (N)
ملک کی تاریخ میں پہلی با ر فخردین جی ابراہیم کو ا س وقت کی حکومت پیپلز پارٹی، اپوزیشن مسلم لیگ(ن)اور دوسری چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر مقررکیا گیا ،فخرو بھائی کی تعیناتی پر تقریبا تما م سیاسی جماعتوں کی جانب سے اظہار اطمینان کیا گیا تھا اور ان کی تقرری کو خوش آئند کہا گیا تھا ۔قارئین فخردین جی ابراہیم کی تعیناتی کے بعد پہلی بار یہ تصور کیا جارہا تھا کہ اس بار یعنی کہ 2013 میں ہونے والے الیکشن حقیقی معنوں میں صاف شفاف اور غیر متنازع ہوں گے
،لیکن بدقسمتی سے یہ الیکشن ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع الیکشن بن گئے ۔وہ جماعت جس کے سربراہ نے سب سے زیادہ فخردین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی کو خوش آئندکہاتھااو ر ان کی تقرری پر سب سے زیادہ اطمینان کا اظہار کیا تھا آج وہی جماعت 2013 میں ہونے والے الیکشن کے نتائیج کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور پچھلے کئی ماہ سے ان الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر بیٹھی ہے ۔عمران خان صاحب کی انداز سیاست سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے اس الزام کہ 2013 کے الیکشن دھاندلی زدہ تھے اس کو نظر انداز اس لئے بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس الیکشن میں ہارنے والی جماعتیں تو دھاندلی کے الزام لگا ہی رہی ہیں جیتنے والی جماعتیں بھی دھاندلی کا واویلا مچاتی دیکھائی دیتی ہیں۔
سابق چیف الیکشن کمشنر فخرو دین جی ابراہیم خود بھی کئی بار اپنی بے بسی کا اظہار کرتے رہیں ،بلا آخر اپنی علالت اور سیاسی جماعتوں کی تنقید کے پیش نظر فخرو بھائی اپنے عہدے سے استعفی دے کر چلے گئے ،ان کے استعفی دینے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کی خالی ہونے والی کرسی پر جسٹس انور ظہیر جمالی کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر لگا دیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے کیس میں سپریم کورٹ نے بھی حکومت اور اپوزیشن کو مستقل چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنے کیلئے 5 دسمبر 2014 کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی۔
بہر حال ایک بار پھر عوامی حلقوں اور سیاسی حلقوں کی جانب سے سردار رضا خان کی تقرری کو خوش آئندکہا جا رہا ہے ،اور ان پر متفقہ طور پر عتماد کا اظہار کیا جارہا ہے ، اور ان حلقوں کی جانب سے توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ وہ منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں گے۔ اب سردار محمد رضا خان بطور چیف الیکشن کمشنر عوامی اور سیاسی حلقوں کی امیدوں پر کس قدر پورا اترتے ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت اور آئندہ ہونے والے الیکشن ہی کریں گے۔