وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر

Hate

Hate

کوئی آپ کو بلا وجہ برا کہے تو یہ جان لیں کہ دونوں میں سے کوئی ایک ضرور اندھیرے میں ہوگا” لیکن یہاں معاملہ کچھ مختلف تھا۔ ہم دونوں اندھیرے میں تھے۔ سو نہ میں اسے پہچان پایا نہ وہ مجھے۔ یہی غنیمت ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو ”ان فرینڈ” نہیں کیا تھا۔ بے جا ہے یہ کہنا کہ” پہلا تاثر آخری ہوتا ہے”۔محبت سے سوچا جائے تو اس نظریے کی نفی ہوتی ہے۔ لیکن کیا کیاجائے کہ لوگ نفرت کے عادی ہو چلے ہیں۔ اپنے اردگرد ان دیکھی دیواریں کھڑی کر لیتے ہیں اور بصارت کے ہوتے ہوئے بھی ”دیدار ”سے محروم ہوجاتے ہیں۔

یہ تک نہیں سوچتے کہ یہ کتنی بڑی محرومی ہے؟۔مزمل صدیقی سے میرے تعارف کو کوئی سال بھر ہونے کو آیا ہے۔اس قبل میں اس نام کے آدمی سے ناواقف تھا۔اس غفلت میں اس کی گمنامی سے زیادہ میری لاعلمی دخیل ہے ۔چند ایک بار فیس بک پربات چیت کے بعد میرا اس کے بارے پہلا تاثربرا نہیںتوکچھ ایسا اچھا بھی نہیں تھا۔ایک بار کسی بات پر بحث ہوئی تو یہ منفی تاثر کچھ اورگہرا ہوگیا۔مجھے کچھ سنکی اورجھکی سا لگا۔اڑیل ‘منہ چھٹ’ شدت پسند بدگمان سا۔پھر بھی ناجانے کیوں میں اس کو بھلا پایا نہ دل سے گراپایا۔ضروری تو نہیں ہر کوئی آپ کا ہم خیال ہو،آپ ہی کی طرح سوچے۔ہر شخص اپنی جگہ آزاد ہے اور اسے یہ حق بہر حال ملنا چاہئے کہ وہ کسی کی ”غلامی ”قبول نہ کرے۔

کسی بھلے آدمی نے کیا اچھا کہا ہے ”میں تیرے اس حق کیلئے لڑوں گا کہ تو مجھ سے اختلاف کرے ”۔پتہ نہیں کیوں اختلاف رائے پرکچھ لوگوں کو اختلاج ہونے لگتا ہے۔بات کہیں اور نکل گئی۔ہاں تو جناب میں نے لکھا کہ ہم دونوں اندھیرے میں تھے ۔میں اندھیرے میں تھا اس کوسمجھ نہ پایا ۔وہ اندھیرے میںتھاسو اسے اپنے سو اکوئی اور دکھائی نہ دیا۔گویا ”دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی”۔بیچ کا بہت سا وقت ‘بچ بچا’والا تھا۔سو کترا کر گزر گیا۔ہم اور دور نہ ہوئے ،ہاں جب ملے تو پہلی سی سرد مہری باقی نہ رہی تھی۔ اب حالات خاصے مختلف ہیں ۔اس بلا کی گرمی میں بھی خوش گواریت کے حامل۔معلوم ہوا محبت ہو یا نفرت دونوں کو کچھ وقت ضرور دینا چاہئے۔جلد بازی اکثر کام بگاڑ دیا کرتی ہے۔افسو س اکثر ایسا نہیں ہوتا ۔سوجب وقت گرتا ہے تو صورت کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے
وقفے کے درمیان کوئی اٹھ کر چلا گیا
پردہ ہٹا تو سارا تماشا بدل گیا

کوئی بیس دن پہلے اس نے مجھے اپنی ایک طویل تحریر ”عبداللہ نظامی آئی لو یو” میل کی ۔تحریر ابھی ”زیرِ تعمیر” تھی کہ اس نے اپنے دوستوں سے ”سماجی ذریعہ ابلاغ”پر اس حوالے سے اپنا ارادہ ظاہر کر دیا تھا۔ہو سکتاہے کوئی بے چینی سے اس کی تکمیل کامنتظر بھی ہو۔کم از کم مجھے اس حوالے سے کوئی اشتیاق ہرگز نہ تھا۔یہ کون سا انہونی بات تھی کہ میں کسی بے تابی کا شکار ہوتا۔ادیب بیچاروں کا اس کے علاوہ اور مصرف ہی کیا کہ قلم ہاتھ میں لئے صفحات کالے کرتے رہیں۔ جولائی کے” سچی کہانیاں ”میں اس کی ایک تحریر البتہ میںپڑھ چکا تھا اور یہ مان بھی کہ اس میں لکھنے کی صلاحیت بہر حال موجودہے۔بس چیزوں کو کچھ الجھا دیا کرتا ہے۔

وقت کے ساتھ یہ بھی سیکھ جائے گا۔میں نے دل ہی دل میں کوخود تسلی دے لی تھی۔تحریر ملی تو ساتھ میں یہ مطالبہ بھی تھا کہ میں اس پر اپنی رائے بھی دوں۔یہ دونوں کام میرے لئے ہرگزآسان نہ تھے۔جہاں پڑھنے کے معاملے میں میری سستی مثالی ہے وہی کچھ لکھنے کا کہا جائے تو میرا قلم سرکش ہو جاتا ہے ۔مرضی کا مالک جو ٹھہرا۔سوادھرمطالبہ بڑھتا گیا ادھر میری سستی اورقلم کی سرکشی۔بہت کہاکہ بھائی تم نے بہت دن لگا کر لکھا کم از کم اس سے آدھا وقت مجھے بھی دو۔

ہو مزمل اور ٹل جائے”کب ممکن ہے تم ہی کہو”۔سو میں بھی اڑا رہا اور وہ بھی۔اس دوران اس نے چالاکی سے آخری تاریخ لے لی۔بس پھر کیا تھا پڑھتے ہی بنی ۔دو نشستوں میں (جن کے درمیان ہفتے بھر کا فاصلہ تھا)وہ تحریر پڑھ ڈالی۔اب اس پر تبصرے کا کٹھن مسئلہ درپیش ہے۔

جب تحریر ختم کی تو کچھ دیر تک اسی دنیا میں کھویا رہا جو اس نوجوان ادیب نے کھوجی تھی۔لگتا ہے اس کی دکھائی ہوئی وہ دنیا یادوں سے زندہ رہے گی۔اس نے اسے آپ بیتی کہا ہے ۔لیکن یہ صرف آپ بیتی ہرگز نہیں ۔مجھے تو یہ ایک سفر نامہ لگا جو اس کی محدود دنیا پر محیط ہوکر بھی محدود نہ تھا۔یوں لگا سلوک کا کوئی راہی اپنی قلبی واردات کا انکشاف کر رہا ہو۔ میر کیا خوب یاد آئے
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
اس نے یہ تحریرایک نشست میں نہیں لکھی پھر بھی تسلسل قائم رہا ۔آخرتک دلچسپی برقرا ر رہتی ہے۔تجسس بھی پایا جاتا ہے جو قاری کی انگلی تھام کر اسے ساتھ لئے پھرتا ہے۔بین السطورمیں کئی ایسی باتیں ہیں جو پڑھنے والے کو کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔جگہ جگہ اس کا مطالعہ چھلکتا اور مشاہدہ ابھرتا ہے۔تحریر پر گرفت خوب ہے اور جا بجا خوبصور ت جملے جگمگاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ایک مختصر سی ملاقات کا اس قدر پھیلاؤ بڑا حیران کن ہے۔تحریر میں دلکشی کیلئے اسے اچھوتے انداز سے لکھنے کی ،اس نے شعوری کوشش کی ہے۔

Friendship

Friendship

اس سے قطع نظر کہ اس میں کس حد تک کامیاب رہا ہے،اسکی یہ ادا قابل داد بھی قابل دید ہے۔ایک نوجوان نے نقالی کی بجائے اجتہاد سے کام لیا ہے۔ کلاسیکی و جدید ادب سے اپنی نئی اور ایک راہ تراشنے کی یہ کوشش ظاہر کرتی ہے کہ اس کے اندر ایک ادیب چھپا بیٹھا ہے ۔جس کا مشاہدہ خوب ہے اور یاداشت بھی۔جو دیکھتا ہے یاد رکھتا ہے جو پڑھتا ہے اسے مناسب وقت پر کام میںلاتا ہے۔اس تحریر سے اسکی کتاب سے محبت کا سراغ ملتا ہے ۔تصنع بناوٹ پر حاوی ہے۔عہد ِجدید کے کسی نوجوان سے کتاب دوستی کی امید ” بیل والے کے گھر سے لسی ملنے توقع” کے مترادف ہے۔اور پھر اس نے تو خود کو مجنوں بنا ڈالا ہے جو دور دور سے کتابوں کو” ٹیپتا ”رہتا ہے۔ اس کی مطالعہ کی عادت (کچھ تو ہوگی ) اسے بہت آگے لے جا سکتی ہے۔

نظامی صاحب کی شخصیت سے اس کا لگاؤ جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔وہ انہیں مرشد لکھتا ہے ۔شکر ہے روحانی نہیں سمجھتا ۔اس کی یہ روش بڑی عجیب لگی کہ وہ احترام اور اعتراف کے ساتھ اختلاف سے بھی نہیں چوکتا ۔اپنی تعریف کسے اچھی نہیںلگتی ؟لیکن ستائش پسندی کا یہ جذبہ اس میں خاصا بڑھا ہوا ہے۔ممکن ہے یہ اعتراف نہ کئے جانے کا ردعمل ہو۔بہر حال اس کے جاننے والے اس کی جس ”خوبی ”کو پہلے بھانپ لیتے ہیں وہ خودستائی ہی ہے۔دوسری بات یہ بھی کہ وہ کسی پر اندھا اعتما د نہیں کرتا ۔بدگمان بلا کا ہے۔بسا اوقات معمولی سی بات بھی اسے منفی سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔میں نے اس کی چند ایک تحریریں دیکھی ہیں (شاید اس نے لکھی بھی زیادہ نہیں ہوں گی)زیر نظر تخلیق اس کی بہترین پیشکش ہے۔اس نے بجا طور پر ایک نئی دنیا کشف کی ہے۔

اور قاری کو یہ منوانے میں بھی کامیاب رہا ہے کہ یہ کوئی معمولی دنیا نہیں ہے۔جس میں احترام بھی۔تلخی بھی ہے اوراپنائیت بھی۔احساس ذمہ داری بھی اور ناکامی کا دکھ بھی۔جیت کی لگن بھی ہے اور سچ کی تڑپ بھی۔اسے مبارک ہو کہ اس نے ایک سچے انسان کو ڈھونڈ نکالا ہے جو ادیب بھی ادب پرور بھی ۔ضرورت اب اس امر کی ہے کہ وہ خود کو ڈھونڈنکالے۔خود کو منوانے کی بجائے خودپانے کی سبیل کرے ۔اس نے ہمیں یہ پیغام تو دے ہی دیا ہے کہ ہم اپنے اردگرد موجود” نظامی” جیسے لوگوں کو ڈھونڈیں اور انکی کاوشوں کو اعتراف کریں(یہاں مجھے اس مضمون میںایک علامتی رنگ جھلتا صاف دکھائی دیتا ہے )جہاں اعتراف کم ہو جائے اختلاف وہیںپھلتا پھولتا ہے۔پھر منفی طرز کا یہ اختلاف صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے۔

اس کا لکھا گیا ایک لفظ (صاحبو!)قاری کو اول تا آخربدمزہ کئے رکھتا ہے۔کاش وہ اسکا استعمال اتنی بے دردی سے نہ کرتا۔اس نے اس تحریر میںاملا کی عام سی غلطیاں بار بار کیں ۔یہ بات بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے ”حاکم وقت سے کوئی بھول ہوئی ہے۔ہماری قومی زبان کا اب یہ حال ہوگیا ہے کہ ادبا ء تک کی گرفت میں نہیں آتی۔

مجھے لگتا ہے اس کی یہ تحریر خود اس کے لئے مشعل راہ کا کام دے گی۔جتنا اسے اپنی پذیرائی کا شوق ہے اس سے دس گنا کم لکھنے کاہوا،تو اسے ادب میں اپنی ایک منفرد پہچان کرانے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔لیکن ابھی یہ منزل کافی دور ہے۔کچھ اچھا لکھنے کی تڑپ یہ فاصلے سمیٹ بھی سکتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ عشق کی چوٹ سے وہ سنبھلنے لگا ہے۔دیکھتے نہیں پہلے اس کے ارد گرد اندھیرا تھااور اب ایک شمع روشن ہو گئی ہے ۔دعا ہے یہ شمع تاعمر فروزاں رہے ۔جس کی روشنی میں وہ اپنا آپ بھی کشف کر سکے اور خود کو منوا بھی۔ جو لوگ کچھ اچھا پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے یہ تحریر خاصے کی چیز ہے۔ آخر میں میں یہ کہے بنا رہ نہیں پاتا کہ اسے اس شعر پر دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے
تنقید سے خفا نہ ستائش پسند ہوں
یہ دونوں پستیاں ہیں میں ان سے بلند ہوں

Safder Hydri

Safder Hydri

تحریر:صفدر علی حیدری
(sahydri_5@yahoo.com)