تحریر: ایم ایم علی وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے 22 اکتوبر 2014 کو سرکاری ملازمین کیلئے ایک امدادی پیکج کی منظوری دی گئی، جس میں دوران ملازمت انتقال کر جانے والے گریڈ 1سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کے ورثا کو 25 لاکھ گریڈ 17 کے ملازمین کے ورثا کو 40 لاکھ گریڈ 18اور 19کے ملازمین کے ورثا کو 80لاکھ جبکہ گریڈ 20 اور اس اوپر ملازمین کے ورثا کو 90 لاکھ روپے دئیے جائیں گے۔اور دوران سیکورٹی انتقال کر جانے والے گریڈ 1سے گریڈ 16تک کے ملازمین کے ورثا کو 30 لاکھ گریڈ 17 کے ملازمین کے ورثا کو50لاکھ گریڈ 18اور 19کے ملازمین کے ورثا کو 90 لاکھ اور گریڈ 20 اور اس اوپر ملازمین کے ورثا کوایک کروڑ روپے دئیے جائیں گے ۔اس کے علاوہ دوران ملازمت انتقال کرنے والے سرکاری ملازمین کے اہلخانہ کو ریٹا ئر منٹ کی تاریخ تک انکریمنٹ سمیت تمام سر کا ری الائونس دئیے جائیں گے۔
اور دورانِ ملازمت انتقال کر جانے والے ملازمین کے بچوں کیلئے سکول، کالج، یونیورسٹی تک تعلیم ،ٹیوشن ،کتابیں اور رہائشی سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی۔ان سب کے علاوہ رہائش کے طور پر پلاٹ کی خریداری کیلئے بطور امداد بھی ایک مخصوص رقم دی جائے گی اور گریڈ 1سے گریڈ 15تک کے ملازمین کے ایک بیٹے یا بیٹی کو نوکری بھی دی جائے گی ۔حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمین کیلئے اٹھایا گیا یہ قدم نہایت احسن اقدام ہے ۔ لیکن اس پیکج کی منظوری کے بعد جب میں نے اپنے ایک دوست کو مبارک باد، دی جو ایک سرکاری ملازم ہے تو اس نے کہا علی بھائی میں حکومت کے اس امدادی پیکج پر یہ ہی کہہ سکتا ہوں کہ( زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مردہ ہاتھی سوا لاکھ کا)کیونکہ یہ امدادی پیکج مرنے کے بعد لا گو ہوگا اور مرنے کے بعد بھی اس کا فائدہ ہمارے ان اہلخانہ کو ہوگا جن کی جائز ضروریات بھی ہم اپنی زندگی میں پورا نہیں کر پاتے، ہاں ایک فائدہ ضرور مرنے والے کو ہو سکتا کہ اس کے مرنے کہ بعد اس کے لواحقین اس کیلئے اتنا ضرور کہہ دیا کریں گے کہ بے چارہ خود تو مر گیا لیکن ہمارا بھلا کر گیا۔
میر ے اس دوست کا تبصرہ بھی اپنی جگہ درست ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے توہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کئی مشکلات سے دو چار ہیں ۔ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان کے زیر کفالت افرادیعنی ان کے اہلخانہ کو ملا کے یہ تعداد کروڑوں میں چلی جاتی ہے ۔ جس طرح کسی بھی ملک میں سرکاری ادارے اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی سی حثیت رکھتے ہیں ،اسی طرح سرکاری اداروں میں سرکاری ملازمین کی بھی حیثت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ اس طبقے کا سارا انحصار اس کی تنخواہ پر ہوتا ہے، ہمارے ملک میں اس طبقے کو جن مشکلات کا سامنا ہے،اس میں سر فہرست ہے ان کی تنخواہ جو مہنگائی کے اعتبار سے کافی کم ہے ۔
سال کے بعد مہنگائی تو 100 فیصد بڑھ جاتی ہے لیکن ان کی تنخواہ بڑھتی ہے صرف 10 فیصد۔ہمارے ملک میں یہ طبقہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو لے کر ہمیشہ ہی تحفظات کا شکار رہا ہے ،کیونکہ سرکاری ملازمین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت جب بھی آتی ہے اس دور میں ملازمین کو مراعات دینے کی بجائے پہلے سے حاصل شدہ مراعات بھی واپس لے لی جاتی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت سے سب سے بڑا گلا سرکاری ملازمین کو یہ بھی ہے کہ ان کے دور میں سرکاری ملازمین کی تنخوائوں میں انتہائی معمولی اضافہ کیا جاتا ہے ۔
روان مالی سال کے بجٹ کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے ملازمین کا کہنا ہے کہ پہلے تو سرکاری ملازمین کو موجودہ حکومت نے صاف جواب دے دیا کہ ان کی تنخوائیں بڑھائی ہی نہیں جائیں گی لیکن بعد میں ملازمین اور ملازمین کی نمائندہ جماعتوں کے سخت احتجاج کے بعد تنخواہوں میں صرف 10 فیصد اضافہ کیا گیا،جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیزی سے بڑھتی ہو بجلی کی قیمتوں کے پیش نظر آٹے میں نمک کے برابر ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی اکثریت موجودہ حکومت سے نالاں نظر آتی ہے ۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین کے ساتھ حکومت کے اس ناروا سلوک کی اصل وجہ کیاہے ؟ کیا حکومت وقت یہ سمجھتی ہے کہ سارے سرکا ری ملازمین کرپٹ ہوتے ہیں؟ یا شاید وہ یہ سمجھتی ہے کہ سارے سرکاری ملازمین کام چور ہوتے ہیں ؟ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت سمجھتی ہو کہ سرکاری ملازمین کسی اور دنیا کی مخلوق ہو تے ہیں؟ ۔ ہو سکتا ہے
Government of Pakistan
انہی وجوہات کو جواز بنا کر موجودہ حکومت سرکاری ملازمین کو ریلیف دینا مناسب نہ سمجھتی ہو؟ یہ سب باتیں مفروضوں پہ مبنی ہیں، ہو سکتا ہے یہ مفروضے درست بھی ہوں اور ہو سکتا ہے یہ مفروضے درست نہ بھی ہو ں ۔ہم انہی مفروضوں کو بنیاد بنا کر بات کر لیتے ہیں ، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگ تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں سب کے سب ملازمین کرپٹ اور کام چور بھی نہیں ہوں گے اور سب کے سب نیک اور پارسا بھی نہیں ہوں گے۔ البتہ ایک بات تو تہہ ہے کہ سب کے سب سرکاری ملازمین ہیں اسی دنیا کی مخلوق۔ جس طرح حکومت میں موجود سب لوگوں کو ایک صف میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح سب سرکاری ملازمین کو بھی ایک ہی صف میں کھڑا کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔اس بات میں کوئی دوراہے نہیں کہ سرکا ری اداروں میں کرپشن عام ہے اور حکومت کی تمام کو ششوں کے باوجود یہ کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے
حکومت کو اس بڑھتی ہوئی کرپشن کے محرکا ت کو بھی سمجھنا چاہیے ،کیونکہ جب ملازمین کی جائز ضروریات بھی ان کی تنخواہ سے پوری نہیں ہونگی تو وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کرپشن کی جانب مائل ہونگے ۔اور سرکاری ملازمین کو بھی چاہیے کہ وہ بھی کم تنخواہوں اور ناکا فی سہولیات کو جواز بنا کرکرپشن کی راہ کو ہموار نہ کریں کیونکہ برائی تو ہر حال میں برائی ہوتی ہے ۔ اب بھی سرکاری اداروں میں بہت سے افسران اور چھوٹے ملازمین موجود ہیں جو اپنی تمام مجبوریوں اور مالی مسائل کے باوجود کرپشن جیسے ناسور سے کوسوں دور ہیں ۔
بحرحال بات ہو رہی تھی حکومت کی جانب سے دئیے گئے امدادی پیکج کی اس پیکج سے مرنے والے سرکاری ملازم کے اہلخانہ کو ایک مخصوص رقم تو دے دی جائے گی ،لیکن وہ سرکاری ملازم اپنی زندگی میں کن مشکلات سے گذر کر اپنے اہلخانہ کا پیٹ پالتا ہے ،اس بات کو جاننا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اس کے مرنے بعد تو اس کے بچوں کی سکول ،کالج ،یونیورسٹی اور ٹیوشن کی فیس حکومت ادا کر دے گی لیکن جب تک وہ زندہ ہے تب تک وہ اپنے بچوں کی فیسیں کیسے اداکرے؟
کیاسرکاری ملازم کے بچے کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے خدانخوستہ اپنے والد کے مرنے کا انتظار کرنا پڑے گا ؟کیونکہ بقول سرکاری ملازمین کے اس قدر مہنگائی اور بھاری بھرکم یوٹیلیٹی بلوں کی اداگئی کے بعد بچوں کی فیس ادا کرنا تو درکنار روٹی کھانے کے پیسے نہیں بچتے ۔کسی بھی ملک میں کرپشن کے خاتمے اور گڈگورننس کے قیام میں سرکاری ملازمین کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ،صرف چند لوگوں کو نواز دینے سے نہ تو ملک میں کرپشن ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی ملک میں گڈگورننس آسکتی ہے۔ یہ امدادی پیکج بہت اعلی سہی لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ سرکاری ملازمین یہ سوچ کر خود کشیاں کرنا شروع کردیں کہ چلو ہمارے بعد ہمارے اہلخانہ کو کوئی امدادی پیکج ہی مل جائے گا ،جنا ب عالی! مر جانے والے سرکاری ملازمین کیلئے تو آپ ایک پیکج کا اعلان کر چکے، ایک پیکج زندوں کو بھی دے دیجئے۔