پشاور (اصل میڈیا ڈیسک) منظور پشتین کے خلاف ایف آئی آر ڈیرہ اسماعیل خان میں درج کروائی گئی تھی۔ انہوں نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کا ’آئین نامکمل‘ ہے۔ ناقدین کے مطابق پرویز مشرف تو آئین کو ’کاغذ کا ایک ٹکڑا‘ کہہ چکے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو پانچ دیگر ساتھیوں سمیت پشاور کے علاقہ تہکال سے گرفتار کیا گیا ہے۔ تہکال تھانہ کے ایڈیشنل محرر نبی گل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”گزشتہ رات بارہ بج کر پچاس منٹ پر ہم نے منظور پشتین کو گرفتار کیا کیونکہ ان کے خلاف ڈی آئی خان کے ایک تھانے میں ایف آئی آر درج تھی۔ ان کے دیگر ساتھیوں کے مکان کے کرایے نامے میں نام شامل نہیں تھے، اس لیے ان کو بھی گرفتار کیا گیا۔ آج ان کو رہا کیا جائے گا جبکہ منظور پشتین کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘‘
ثناء اعجاز پی ٹی ایم کور کمیٹی کی رکن ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”منظور پشتین پر جو مقدمہ بنایا گیا، وہ ان کی ڈی آئی خان میں تقریر کی وجہ سے بنایا گیا، جس میں انہوں نے 73 کے آئین کو نامکمل کہا تھا۔ پشتین نے کہا تھا کہ 73 کے آئین کی بنیاد انسانی حقوق پر مبنی نہیں اور پاکستان کا آئین اکثریت کے لیے بنایا گیا، جس میں اقلیت کبھی بھی حکمران نہیں بن سکتی، اکثریت سے ان کی مراد پنجاب تھا۔‘‘
ثناء اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ جنرل ضیاءالحق اور مشرف نے آئین کی دھجیاں اُڑائیں اور یہاں تک کہ جنرل مشرف نے کہا کہ پاکستانی آئین کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں لیکن انہیں کچھ نہیں کہا جا رہا ہے جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ، جو عدم تشدد، قانون اور انسانی حقوق کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، کے رہنما کو رات کی تاریکی میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کی پوری تقریر کو سننے اور سمجھنے کی بجائے غلط مطلب نکال کر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ثناء نے مزید کہا، ”یہ ظلم ہے لیکن ہماری تحریک مسلسل اس طرح کے واقعات کا سامنا کر رہی ہے، جس سے ہمارے حوصلے کمزور نہیں ہو سکتے ہیں بلکہ مزید قوت ملی گی۔‘‘
منظور پشتین کی گرفتاری کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے بہت تیزی سے پھیل گئی اور پی ٹی ایم کے کارکنوں میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ محسن داوڑ پی ٹی ایم کے سرگرم رکن اور رکن قومی اسمبلی بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”منظور پشتین ہمیشہ قانون اور آئین کی بالادستی کی بات کرتے آ رہے ہیں اور یہاں ایف آئی آر اور اس طرح کے کیسز بنانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔ ہم ایسے حالات کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔‘‘
فاروق محسود صحافی ہیں اور منظور پشتین کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج محسود قوم کے مشیران اور عمائدین ڈپٹی کمشنر ٹانک کے دفتر کے سامنے دھرنے کے لیے جمع تھے اور اپنے تباہ شدہ مکانات کی سروے اور رقم کا مطالبہ منوانے کے لیے دھرنے دے رہے ہیں۔ لیکن منظور پشتین کو عین اسی دن گرفتار کرنے کا مطلب عمائدین یہ لے رہے ہیں کہ حکومت محسود قوم کے مطالبات کو سمجھنے میں سنجیدہ نہیں۔ اس طرح کے واقعات سے حالات خراب ہوتے ہیں اور لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے چند روز پہلے کہا تھا کہ وہ پی ٹی ایم کے جائز مطالبات ماننے کے لیے تیار ہیں اور وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ پی ٹی ایم کے مسائل پرامن طریقے سے حل ہوں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کا قیام 2018ء میں عمل میں آیا تھا، جس کا مقصد پشتونوں کے حقوق کا تحفظ تھا جو ملک کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے سبب شدید متاثر ہوئے۔ منظور پشتین کی سربراہی میں اس گروپ کے جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت اور ان کی فوج پر کھلی تنقید کے سبب منظور پشتین ایک نوجوان رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
پی ٹی ایم پاکستانی فوج پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ بعض گروپوں کو تو نشانہ بناتی ہے مگر اس کی ایما پر افغانستان میں لڑنے والے دیگر گروپوں کو اس نے چھوٹ دے رکھی ہے۔ امریکا اور افغانستان بھی پاکستانی فوج پر یہی الزامات عائد کرتے ہیں مگر پشتین ملک کے اندر یہ بات کرنے والی پہلی آواز ہیں۔