یکم مئی، ایک دن مزدورں کے نام

Labour Day

Labour Day

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن جس دور میں مزدور کی اجرت سے زیادہ بھکاری کمائیں اُس دور میں مزدور ڈے منانے کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن پھر اپنے مزدور بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کی خاطر قلم اُٹھائے کاغذ کے کچھ ورق سیاح کرنے چلا ہوں۔ ویسے تو مزدور کو میری اور آپ کی یکجہتی کی کم اور مہنگائی بھرے دور میں اجرت (وسائل)میں اضافہ کی زیادہ ضرورت ہے۔جس طرح امیر یعنی حکمران طبقہ اچھی غذا کے ساتھ اپنے بچوں کیلئے صحت و تعلیم کی سہولیات کا حق رکھتا ہے میری نظر میں مزدور کو اُس سے زیادہ حق حاصل ہونا چاہئے لیکن یہاں حق دیتا کون ہے۔

مزدور ڈے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یکم مئی کو منانے کی شروعات بھی اور بہت سے عالمی دنوں کی طرح امریکہ سے ہی ہوئی تھی جب 1884ئ آج سے تقربیا 129سال پہلے امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں مزدوروں نے مطالبہ کیا کہ ان کے اوقات کار 16گھنٹے سے کم کر کے 8 گھنٹے کیے جائیں تو امریکن انتظامیہ نے مزدوروں کا یہ مطالبہ برے طریقے سے رد کر دیا جس کے بعد مزدوروں نے احتجاج کا فیصلہ کیا دوسال تک یہ معاملہ انتظامیہ اور مزدوروں کے درمیان جاری رہا۔ 1886ء تک مزدور وں کی احتجاجی تحریک زور پکڑگئی 3مئی کو مزدوروں نے اپنے مطالبات کے حق میں ایک پرامن ریلی نکالی جس میں مزدوروں نے سفید پرچم اٹھا رکھے تھے جن کو امن کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔مزدوروں کی اس پرامن ریلی پر مقامی پولیس نے گولیاں برسا دیں جس کے نتیجہ میں چار مزدورہلاک ہوگئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ۔اس واقعے کے بعد پولیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ مظاہرین کی طرف سے ایک دستی بم پھینکا گیا تھاجس کے نتیجہ میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا۔

پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ بنا کر آٹھ مزدوررہنمائوں کو پھانسی کی سزا سنادی گئی ۔ جن میں سے چار کو 11نومبر1887ء کو پھانسی دے دی گئی اور ایک نے جیل میں خود کشی کرلی جب کہ باقی تین کو معافی دے کر رہا کردیا گیا ۔تب سے یکم مئی کا دن آج تک دنیا بھر میں مزدوروں کی اس عظیم قربانی کی یا د میں منایا جاتا ہے ۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ پچھلی ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے ہمیں یہ دن مناتے ہوئے ۔ہم ہر سالہ یکم مئی کے دن مزدوروں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔لیکن اس کے باجود مزدور آج بھی سولہ گھنٹوںسے زیادہ کام کرتا ہے ۔لیکن پھر بھی مزدور کے گھر میں دو وقت کی روٹی مشکل سے ہی پکتی ہے ۔اکثر مزدور اپنے گھر کے معالات چلانے کے اپناخون اور گردے بیچتے ہیں۔اور جب اتنے سے بھی بات نہ بنے تو اپنے بچوں کو بھی فروخت کرتے نظر آتے ہیں اوراگر پھر بھی کام نہ چلے تو مزدور کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے جی ہاں خود کشی کا راستہ ۔ اس پر لمحہ فکریہ کہ میرے وطن کا مزدور تو دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنا خون،گردہ اور بچے تک بیچنے پر مجبور ہے۔ لیکن حکمرانوں کو دنیا کی سب سہولتیں دستیاب ہیں وہ بھی سرکاری خرچے پریعنی عوام کی خون پسینے کی کمائی پر پلتے ہیں حکمران ۔کتنے مزے کی بات ہے کہ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے تب سے لے کر آج تک پاکستان اور پاکستانی عوام پرتوقرض بڑھتا رہاہے ۔لیکن محب وطن اور قربانیاں دینے والے حکمران طبقے کے اثاثہ جات لگاتار بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔غریب مزدور کے گھرمیں دو وقت کا کھانا دستیاب نہیں اور حکمران دنیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں ،مزدور غریب خون اور گردے بیچ کر راشن خریدتا ہے اور حکمران دنیا کے مہنگے ترین ہسپتالوں میںعلاج کرواتے ہیں ۔مزدور غریب زندہ رہنے کی کوشش میں اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہے اور حکمرانوں کے بچے دنیا کے مہنگے ترین سکولوں اور کالجوں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔مزدور غریب فٹ پاتھ پر سوتا ہے اور حکمران ذاتی محلات ہونے کے باوجود سرکاری خرچے پر دنیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔

Labour In Pakistan

Labour In Pakistan

کچھ اور مہنگی ترین چیزوں کا ذکر کرنے سے پہلے میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ کیا پاکستان کا مزدور طبقہ یہ بات جانتا ہے کہ سرکاری خرچ کیا ہوتا ہے اور سرکار کیا ہوتی ہے۔مجھے نہیں لگتا ہم پاکستانی عوام اس بات سے واقف ہیں۔کیونکہ اگر ہم اس بات سے واقف ہوتے تو حکمرانوں کا پیٹ پھاڑ کر اپنا حق نکال لیتے۔ میرے نزدیک سرکار ملکیت ہے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی اور سرکاری خزانہ ہے سرکار کا یعنی عوام کا جس کو لوٹ کر حکمران عیاشیاں کرتے ہیں۔ دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں حکمرانوں کے زیراستعمال ہیں اور عوام کو ایک سے دوسری جگہ سفر کرنے کے لئے گھنٹوں سڑک پر گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔غریب پاکستان کے امیر حکمرانوں کی عیاشیاں تو گنی ہی نہیں جا سکتیں لیکن سب سے زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ 18 کروڑ عوام تو ترستی ہے صاف پانی پینے کو اور (اسلامی جمہوریہ پاکستان ) کے حکمران دنیا کی مہنگی ترین شراب پیتے ہیں۔

پھر بھی ہر سال یکم مئی کے دن یوم مزدور ضرور مناتے ہیں ۔ہرسال یکم مئی کے دن حکمران بڑے ،بڑے سیمناروں میں بڑی،بڑی تقریر یں اور شوشے چھوڑتے ہیں لیکن عملاجو کچھ کرتے ہیں اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے ایک بار پھر میدان میں آنا پڑیگا ۔بہت ظالم ہیں یہ لو گ مانگنے سے کبھی بھی مزدورکا حق نہیں دینے والے مزدور کو اپنا حق چھیننا ہی پڑھے گا۔معاف کرنا میرے دیس کے عظیم حکمرانوں جذبات کچھ زیادہ اظہار یکجہتی کرگیا مزدوروں کے ساتھ لیکن آپ لوگ پریشان نہ ہوں ابھی ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر:امتیازعلی شاکر :مرکزی(نائب صدر) کالمسٹ کونسل آف پاکستان CCP
email: imtiazali470@gmail.com,
0315-4174470