تحریر : شاہ بانو میر رگوں میں لہو جما دینے والی سرد برفانی ہوائیں اپنا رخ موڑ کر کہیں اور ڈیرے ڈال چکیں اور اہل فرانس نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ اتنی سردی کے اور اس قدر سیاہی مائل دن کے عادی نہیں ہیں۔ کاروبار زندگی گویا معطل ہو کر رہ گئے حتیٰ کہ سکول بند سڑکوں پر ویرانی کا ڈیرہ پبلک ٹرانسپورٹ سردی سے سکڑ سمٹ کر کہیں چھپ گئی۔ جیسے ہی ہواؤں میں یخ بستگی ختم ہوئی تو رونقوں کی بہار واپس آگئی ۔ موسم نکھرا تو توجہ اداس خاموش بے رونق پودوں کی طرف اٹھی خوشی کا پہلا احساس کہ اب وہ ہرے بھرے ہونے کی تیاری پکڑ رہے ہیں۔ چیری بلاسم اور اس جیسے چند اور شجر گلابی گلابی کونپلوں کے ساتھ سر اٹھاتے جھانکتے ہوئے معصوم شِیر خوار بچوں کی مُندی مُندی آنکھوں کی یاد دلا رہے ہیں۔ اپریل کے آتے ہی بہار کا تاثر فضاؤں سے اڑتا ہوا گھروں کے چھوٹے موٹے باغ باغیچوں تک آن پہنچا ہے۔
باذوق لوگ پہنچ گئے پودوں کی خریداری کرنے نرسریوں اور شاپس پر سبزیوں کے بیج اور کہیں گلابوں کی مختلف اقسام کی قلمیں خریدی جا رہی ہیں اور کہیں من پسند ہر دلعزیز ٹیولپ کی خریداری شروع ہو چکی ہے سمجھدار لوگ گھروں میں ہلکا پھلکا زرعی انداز دکھاتے ہیں جس سے ان کی اصل دیہاتی فطرت زندہ رہتی ہے اور وہ اپنے خاندانی شوق سے خود کو جڑے رکھ کر تازگی محسوس کرتے ہیں ۔ وہ گھروں میں کہیں سلاد کے پتے چقندر پالک سبز پیاز کہیں سلاد کےلئے چھوٹے ٹماٹر۔ کہیں ٹماٹر۔ کہیں دھنیا ۔ کہیں ہری پیاز۔ تو کہیں پودینہ۔ لگانے کے لئے اس ویک اینڈ پر مصروف ہیں۔
ویک اینڈ زیادہ خوبصورت ہو گیا ان کیلئے جو کہیں فیملی کے ساتھ مختصر تعطیل پر جانے کے خواہشمند تھے ۔ ایسٹر کی چھٹی نے لانگ ویک اینڈ بنا دیا ۔ سکول کے بچے اور والدین لشتم پشتم تیاریاں کرتے ہوئے دور دراز گاؤں میں اپنے بڑے بوڑھوں کے پاس پہنچ کر روایتی تہوار مل بیٹھ کر خوشی کے ساتھ منا رہے ہیں۔ اپریل کے آغاز کے ساتھ ہی ایک رونق کا احساس ابھرتا ہے۔ چمکتی دھوپ ہر انسان کو متحرک کر دیتی ہے لوگ سردیوں کی وجود پے منجمند اداسی کے خول کو توڑتے ہیں۔ دھوپ کی تمازت میں خود کو ہشاش بشاش محسوس کرتے ہیں۔
الحمد للہ سردیوں کے اداس خاموش اور نیم ملگجے اندھیروں کا دور ختم ہوا اب سورج راجہ پوری آب و تاب سے ابھریں گے روشنیاں بکھیریں گے اور گھروں میں کچھ مہینوں سے مبحوس تمام لوگوں کو قریبی پارکس جانے کی دعوت عام دیں گے ۔ دن تو اجلا ہو گیا ہے اب رات بھی سونی سونی نہیں رہی ۔ شام ہوتے ہی خنک ہواؤں کا زور رات ہوتے ہی ٹوٹ جاتا ہے آسمان سردیوں کی نسبت بہت نتھر جاتا ہے واضح طور پے ستاروں کی دمک چاند کی مدہم مدہم پُرنور روشنی میں ذہنوں کو تراوٹ دیتی ہے۔
موسم اللہ سبحان و تعالیٰ کی خاص نعمت کہ رات آتی ہے تو پیچھے دن آتا ہے اور رات کو ختم کرتے ہوئے کس مستحکم انداز سے سورج طلوع ہو کر آسمان دنیا پر اپنی حکومت قائم کرتا ہے سبحان اللہ کائنات اس وقت انسان کو پکار پکار کر دعوت غور و فکر دیتی ہے کہ جاگ جا سن ذرا باہر آ دیکھ اپنے رب کی کاریگری کو چرند پرند سب کے سب تیرے رب کی عظمت کی حمد میں مصروف ہیں اور تو جس کیلئے تیرے رب نے اتنے حسین انداز سے آسمان و زمین کو مرصع کیا تو اس خوبصورتی سے جس میں کئی سبق ہیں اہل دانش کیلئے اس سے محروم سو رہا ہے ؟ جاگ اے انسان اس سے پہلے کہ تیری نیند آخرت میں تیرا مقدر سُلا دے جاگ اور اپنے رب کی کبریائی بیان کرتے ہوئے اس کے حضور جھک جا عاجز بن جا توبہ کر لے استغفار پڑھ لے اور اپنے لئے اس دنیا کا ہی نہیں آگے کا بھی کچھ سامان اکٹھا کر لے۔
اپریل کا خوبصورت با رونق موسم بہار کا عنوان مجھ سے کہ رہا ہے خود بھی جاگو اور دوسروں کو بھی جگاؤ یورپ کی فضاؤں میں اذان نہیں گونجتی مگر نجانے کیوں اپریل کی دھُلی ہوئی صاف صبح ہر سمت سے کُوکتی ہو جیسے “” الصلوة خیر من النوم “” اور وہ صبح کی پرسکون خاموشی کے سجدے اس جیسی لذت پھر دوسری صبح ہی نصیب ہوتی ہے۔ ہر سمت اگتا ہوا نیا سبزہ ایک لمبے سانس کے ساتھ وجود میں طمانیت بھر دیتا ہے ۔ رگ رگ جیسے جکڑن سے آزاد ہو کر تازہ فرحت بخش ہواؤں میں آزاد ہو گئی ہو جیسے۔ ارد گرد دکھائی دیتے اودی نارنجی سرخ جامنی پنک الغرض کونسا رنگ اور پھول ہے جو یہاں اللہ کے اِذن سے انسانی ذہن نے تخلیق نہیں کر دیا۔
ماضی میں اس مہینے کو شروع ہوتے ہی اغیار ہمارے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کیلئے رٹا رٹایا انداز اختیار کرتے ہیں اس بار ہم سختی سے ایسے ہر انداز کو کچلیں گے اورایسے ماضی کو یاد کر کے کسی ظالم کو اپنے زخموں سے رِِستا لہو نہیں دکھائیں گے۔ بلکہ جس دین کو کچلنے کیلیۓ ظلم کیا تھا اس دین پر عمل کر کے خود کو تبدیل کر کے نئے سرے سے اسلام کے اس پُرامن پیغام کو پوری دنیا میں پہنچا کر نئے دور کا نئے انداز سے”” اپریل کُول “” کا آغاز کریں گے۔
اس دین کی درست تعلیمات از خود نہیں بلکہ قابل احترام۔ قابل قدر۔ استادوں سے سیکھ کر تابناک اسلام کا وہی دور واپس لانے کی کوشش کرنی ہے۔ جس میں ہر مسلمان اور غیر مسلم کیلیۓ عافیت تھی امن تھا احترام تھا ۔ اپریل کُول کی مہکی مہکی صبح مجھے ماضی کا ظلم نہیں بلکہ حال اور مستقبل میں نئی نسل کی دین سے والہانہ وابستگی اور پُر اثرمحبت دکھا رہی ہے۔ جو ان چند محترم استادوں کی بدولت ہے جو آج بھی ہم جیسے بہت سوں کے سوئے نصیب جگانے کا باعث بن رہے ہیں۔ جو آج کے دور میں بھی اپنی زندگیوں کو احیائے اسلام کیلئے وقف کر کے درست اسلام کی اصل تصویر کشی کی کامیاب کوشش میں مصروف ہیں۔
پڑھا لکھا اسلام جو ان سے ہمیں مل رہا ہے اور درست اصل اسباق آج کی اہم ترین ضرورت ہے جو ہمارے دل کی مایوسی کو بدل کر توکل باللہ سے تازہ جہاں پیدا کر رہا ہے۔ اور پوری دنیا میں پھیلتا ہوا پُرامن اسلام کا سرسبز و شاداب مستقبل پُکار پُکار کر کہ رہا ہے تعمیر فکر و نظر کرنی ہے اور فرسودہ فسطائیت پر مبنی سوچ کو مسترد کر کے نئی روشن سوچ کے ساتھ اپریل کو شروع کرنا ہے جو ہمارے زوال کا نہیں ہمارے عروج کا نیا عنوان بنے گا اس سال سے اب اپریل فُول نہیں بلکہ اپریل کُول ہو گا۔