یوم شہری دفاع کی اہمیت و افادیت

War

War

موجودہ ترقی یافتہ دور میں جنگ کسی خاص سرحد، علاقہ یا کسی خاص ملک تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا دائرہ اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ایک عام شہری اپنے گھر میں بھی اتنا ہی خطرے سے دوچار ہے، جتنا فوج کا سپاہی اپنے میدان جنگ میں ہوتا ہے۔ قدیم دور میں لڑائی کیلئے میدان جنگ کا انتخاب ہوتا تھا، جیسا کہ آج سے 14سو سال پہلے دور نبوت میں کفار کے ساتھ جنگیں لڑی گئی ہیں، اُن کیلئے بدر کا میدان، جنگ خندق، جنگ خیبر یعنی خیبر کا قلعہ۔ مگر جوں جوں وقت گذرتا گیا، انسان جوں جوں ترقی کی منازل طے کرتا گیا، انسان نے ہر فیلڈ میں ترقی کی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا، وہ تمام اوزار حرب و ضرب بیکار ہوگئے، جن کو پچھلے کئی سالوں سے انسان استعمال کرتے رہے ہیں، اب اُسی انسان نے ایسے ہتھیار بنائے ہیں، جن کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلائی جاسکتی ہے، موجودہ دور میں ایسے تباہ کن آلات حرب و ضرب بنائے جاچکے ہیں، جن کے اثرات سے نہ صرف کسی ملک کی عسکری قوت اور ذرائع رسل و رسائل کو فوری طور پر تباہ کیا جاسکتا ہے بلکہ شہری آبادی اور صنعتی علاقوں کو نشانہ بنا کر عوام کو شدید خوف و ہراس میں مبتلا کرکے اُن کے دُشمن کے خلاف لڑنے اور جنگ جیتنے کے حوصلوں کو معدوم کیا جاسکتا ہے۔

اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ اب ہر ملک کو اپنی حفاظت اور دفاع کیلئے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا اور اپنے ملک اور اپنی آزادی برقرار رکھنے کیلئے دفاعی قوتوں کو مضبوط اور مستحکم کرنا پڑے گا۔ یہ اُس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب کوئی ملک اندرونی اور بیرونی دفاعی پالیسیوں میں مضبوط ہو کیونکہ جنگ کے دوران افواج کاکام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے جبکہ اندرونی نظام کو برقرار رکھنے کیلئے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت پڑتی ہے جو ہر مشکل وقت میں اندرونی نظام کو برقرار رکھے۔ اسی بناء پر ہر ملک میں تنظیم بنائی گئی ہے، جس کو تنظیم شہری دفاع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

اس وقت دُنیا میں تقریباً بہت سے ملکوں میں شہری دفاع کی تنظیمیں موجود ہیں۔ کہیں اس کا نام الدفاع المدنی ہے ، کہیں سول پروٹیکشن اور کہیں اسے سول ڈیفنس کہا جاتا ہے۔ کسی ملک میں یہ تنظیمیں خالصتاً شہری انتظامیہ کے پاس ہیں اور کسی ملک میں یہ کام مسلح افواج کی طرح عسکری نوعیت کی طرح ہے لیکن اس کے باوجود دُنیا میں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں تھ، جہاں پر تمام ملکوں کے نمائندے آپس میں بیٹھ کر تبادلہ خیال کرسکتے ہوں۔ 1931ء میں ایک فرانسیسی سرجن جنرل جارج سینٹ پال نے اس کی اہمیت کو جانتے ہوئے ایک تنظیم بنائی، جس کو جنیوا زون کہہ سکتے ہیں جارج سینٹ پال کا مقصدیہ تھا کہ ایک ایسا غیر فوجی علاقہ مقرر کردیا جائے، جہاں پر وہ شہری جن کا جنگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مثلاً عورتیں، بچے، بیمار، عمر رسیدہ افراد پناہ لے سکیں اور جنگ کی ہولناکیوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ جب جارج سینٹ پال 1937ء میں انتقال کرگئے تو یہ تنظیم پیرس سے جنیوا منتقل ہوگئی اور اس کا نام بدل کر بین الاقوامی تنظیم برائے حفاظت شہری آبادی و تاریخی عمارات رکھا گیا۔ وہاں پر ہنری جارج اس تنظیم کے نئے سیکرٹری جنرل بنے۔ پھر 1951ء میں ڈاکٹر میلان لودھی اس تنظیم کے نئے سیکرٹری جنرل بنے ، جنہوں نے 1954ء میں برلن شہر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کروائی ۔ جس میں کھلے شہروں اور غیر فوجی زون مقرر کرنے کا فیصلہ ہوا ، بعد میں اسے شہری دفاع کانفرنس کا نام دیا گیا۔ جنوری 1958ء میں اس تنظیم کا نام بدل کر انٹرنیشنل سول ڈیفنس آرگنائزیشن رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے مقاصد بھی وضع کیے گئے۔ اب صرف شہریوں کی حفاظت ہی نہیں بلکہ اس تنظیم کو پیش آنے والے حادثات کی صورت میں مختلف اقدامات کرنے کے بارے میں سفارشات مرتب کرنے کاکام بھی سونپا گیا ۔ اس طرح سے مختلف ممالک میں موجود شہری دفاع کی تنظیموں سے روابط بھی بڑھانے تھے تاکہ مختلف تجربات کی روشنی میں ایک قابل عمل لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔

Conference On Civil Defence

Conference On Civil Defence

مئی 1958ء میں تیسری بین الاقوامی شہری دفاع کانفرنس جنیوا میں منعقد ہوئی، جس میں 33ملکوں کے 130مندوبین شریک ہوئے۔ ان میں مصر، ایران اور فلپائن کے مندوبین بھی شامل تھے اور یہی تین ممالک اس تنظیم کے پہلے رُکن بنے۔ بین الاقوامی تنظیم شہری دفاع کا آئین 17اکتوبر 1966ء کو مناکو میں بنایا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ اس وقت نافذ العمل ہوگا جب کم ازکم دس ممالک اس کے ممبر بن جائیں گے اور یہ یکم مارچ 1972ء کو ممکن ہوا۔ اِسی دن کی مناسبت سے یکم مارچ کو ہر سال ممبر ملکوں میں یوم شہری دفاع بین الاقوامی طور پر منایا جاتا ہے۔ اس وقت دُنیا میں اس تنظیم میں 50 ممالک شامل ہیں۔ اگرچہ اس بین الاقوامی فورم کے آئین کے تحت انسانی ہمدردی کی بناء پر عالمی سطح پر جنگ کے بعض اُصول و قواعد وضع کئے گئے ہیں مثلاً صرف فوجی مورچوں اور ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا جائے گا۔ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو جنگ کی سفاکیوں سے محفوظ رکھا جائے گا۔ شہری آبادیوں پر بم نہیں برسائے جائیں گے، جراثیمی بم نہیں پھینکے جائیں گے اور نہ ہی خوراک کے ذخیروں کو زہر آلود کیا جائے گا، ہسپتالوں پر ہوائی حملوں سے گریز کیا جائے گا، ریڈ کراس کے نمائندوں کو جنگ سے متاثرہ لوگوں کی ہنگامی امداد کے لئے کسی ملک میں جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ لیکن سابقہ جنگوں سے یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ اِن اُصولوں کی اکثر صریحاً خلاف ورزی کی جاتی ہے، اس لئے اب کہیں بھی شہری آبادیاں دُشمن کی دسترس سے محفوظ نہیں سمجھی جاسکتیں۔

بعض ممالک کے پاس اتنی فوج نہیں ہوتی کہ وہ میدان جنگ میں بھی لڑسکے اور شہری آبادیوں کی حفاظت بھی کرسکے۔ دُشمن کے جہاز بعض دفعہ اندون ملک داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور زبردست تباہی پھیلانے کا موجب بنتے ہیں، ان حالات میں ملک کے ہر باشندے کا فرض ہے کہ وہ انفرادی طور پر اپنے محلہ کی حفاظت خود کرے اور اجتماعی طور پر تنظیم شہری دفاع میں شامل ہوکر اپنے ہم وطنوں کے دُکھ درد بانٹے۔ اگر عوام بلند حوصلہ ، پختہ عزم اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوں تو نازک ترین حالات کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

دُنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ میں جب لوگوں نے اندرونی محاذ کو مضبوط بنایا تو اس سے نہ صرف شہری نقصانات کم ہوئے بلکہ فوجوں کو بھی بہت تقویت ملی۔ اس کے برعکس جہاں لوگوں نے حوصلہ ہارا، وہاں فوجی قوت کو بھی ٹھیس لگی اور دُشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہوگیا۔ شہری دفاع کی تربیت نہ صرف دوران جنگ پیدا ہونے والی صورتحال کیلئے ضروری ہے بلکہ زمانہ امن میں بھی اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مکانات گرنے، آگ لگنے، پانی کا پائپ پھٹنے، گاڑیوں کے ٹکرانے کے واقعات ہر دور میں دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں، کوئی شخص بے ہوش ہوجائے یا پانی میں ڈوب جائے یا کسی کو سانپ یا کتا کاٹ لے، کسی کپڑوں کو آگ لگ جائے یا کارخانوں یا گھروں میں گیس سلنڈر پھٹ جائے، مصیبتوں اور ناگہانی حادثات کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اِن تمام ہنگامی حالات میں شہری دفاع کے تربیت یافتہ افراد مسیحا ثابت ہوتے ہیں اور متاثرہ افراد کو بروقت امداد سے بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ ہر شہری، شہری دفاع کی تربیت حاصل کرے۔

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر :ریاض احمد ملک