انسانی رابطے کی ابتداء اس وقت ہوئی جب دو انسانوں نے ایک دوسرے سے بات چیت کا آغاز کیا ،جبکہ آج زرائع مواصلات میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ پرانے زرائع آہستہ آہستہ متروک ہورہے ہیں یا ان کے استعمال میں کمی واقع ہونی شروع ہو گئی ہے، جیسے خط ،ٹیلی گرام، تار و غیرہ۔ البتہ ان پرانے زرائع ابلاغ میں سے اخبارات نے اپنی حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے ،بلکہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان میں جدت اور انقلاب پیدا ہوچکا ہے۔ ہمارے آج کے اخبار کل کی تاریخ ہیں ،پرنٹ میڈیا کااپنا ایک اہم کردار ہے۔پاکستان کے بڑے بڑے اخبار غیر جانبدار رپورٹنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر بعض اوقات سیاسی اثرور سوخ، کمرشل ازم، کسی ایک طبقہ کی طرف جھکائو، ان کو جانبدار بنا دیتا ہے۔ بڑی بڑی سرخیاں عموما عوام میں خوف ،بے جینی اور مایوسی جیسے جزبات پیدا کر دیتی ہیں، مقابلے کی دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کے چکر میں بہت سے رپورٹر حضرات من گھڑت اور بے بنیاد کہانیاں حقائق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں، اور بغیر تصدیق کے چھاپ بھی دی جاتی ہیں، اس لئے کہ خبر کی تصدیق کا کوئی زریعہ ہی نہیں ہے۔ بس خبر چٹ پٹی مرچ مصالحے والی ہو۔، ایسی ہی جھوٹی سچی خبریں معاشرے میں نفرت تعصب اور ایک دوسرے سے دوری کی راہ اور فضا کو ہموار کرتی ہیں۔
ہمارے ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں اخبار ورسائل شائع کئے جاتے ہیں، جبکہ اہم مواقع پر خصوصی اشاعت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے ،اس طرح مذہبی، سیاسی، سماجی ،معاشرتی اور معاشی پہلوئوں کو اجاگر کیا جاتا ہے ،دینی اور مذہبی مضامین کی تو بس خانہ پُری ہی کی جاتی ہے، اس لئے کہ ہر سیاسی جماعت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کو بھرپور طریقے سے اخبار میں جگہ ملے، سیاسی شخصیات خبروں میں نمایاں جگہ لینے کیلئے مختلف ہتکنڈے بھی استعمال کرتی ہیں یہ وہ و جوہات ہیں کہ جس کی وجہ سے زیادہ تر جگہ سیاسی بیانات، کالم، مضامین اور سیاست سے تعلق رکھنے والے مواد کو دی جاتی ہے۔
مذہبی تحریروں کو عام فہم اور آسان نہیں لکھا جاتا، اور اگر مذہبی تحریریں شائع بھی ہوں تو وہ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں شاز کے طور پر ہی اصلاح کا کام کرتی ہیں۔ کیونکہ ان خبروں کو سیاسی ماحول کے مطابق بنا دیا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کی آڑ میں سامنے آنے والی تحریر کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ قرآن سے شادی یا لڑکی نے بھاگ کے شادی کر لی، سسرال والوں نے تیزاب پھینک دیا، کارو کاری، غیرت کے نام پہ قتل جیسی خبریں وہ زہریلے مواد ہیں کہ جو اصلاح کی بجائے معاشرے کو خواتین پر اوربھی ظلم پر اُکساتی ہیں۔
Media
معاشرے میں ان منفی خبروں کی بجائے اگر مثبت اور قابل فخر کارناموں کو زیادہ اجاگر کیا جائے تو شاید دیکھا دیکھی اصلاح کا پہلو بھی نکل آئے۔ کہا جاتا ہے کہ برائی کی جس قدر تشہیر کی جاتی ہے وہ اتنے ہی اپنے قدم جماتی ہے۔ جب اچھائی کو پنپنے کا موقع ہی نہیں ملے گا تو کیا خاک معاشرہ سدھرے گا۔ اگر اخبارات اصلاحی موضوع اور دین اسلام کی پر امن تعلیم کا پرچار کر رہے ہوتے تو یوں آج دین اسلام کو مغربی میڈیا جبر، ظلم اور دہشت کی علامت نہ بناتا، اسلامی بم، اسلامی دہشت گردی اسلا می انتہا پسندی جیسی اصطلاحات وجود میں نہ آتیں۔
اور معاشرہ میں بھی اس قدر بیگاڑ پیدا نہ ہوتا۔ سائینسی ترقی کے ساتھ ہی نئی ٹیکنالوجی کا حصول آسان اور ہر ایک کی پہنچ میں ہو جانے کی وجہ سے پہلے کمپیو ٹر پر کمپوزنگ کی شروعات سے کتابت کا فن زوال پزیر ہوا ،اوراب پرنٹ میڈیا کادور خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جنوری 2013 سے بین الاقوامی شہرت یافتہ میگزین نیوز ویک کا کور پیج 80 سال کے بعد اب کسی اخباری پیپر کی بجائے ویب سائیٹ اور ٹیوٹر پر دیکھا جاسکے گا،1937 سے آغا ز کرنے والا امریکہ کا دوسرا بڑا ہفت روزہ ہے، اب قارئین کی بڑی تعداد آن لائین نیوز پیپر کی طرف متوجہ ہو چکی ہے۔
اب پرنٹنگ کا دور بھی اپنے اختطامی مراحل کی جانب بڑ ھ رہا ہے۔ کی ایڈیٹر ٹینابرائون کا کہنا ہے کہ” بعض اوقات تبدیلی محض اچھی نہیں ہوتی نا گزیر بھی ہو جاتی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا۔ پہلے پہل میڈیا غیر جانب دار ہوا کرتا تھا، ذات پات مذہب اور اونچ نیچ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، مگر افسوس کے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے فرقہ پرستی کا چولہ اوڑھ لیا ہے ،جب چاہیں جعلی واقعات کی بنیاد پر کسی کی پگڑی اچھال دی، کسی کو دہشت گرد تو کسی کو ہیرو بنا کر پیش کر دیا، کہیں کوئی حملہ ہو پولیس والوں اور انتظامیہ کو تو کانوں کان بھنک نہیں ملتی۔
لیکن نیوز چینل والے ایکسکلوزیو اور اسپیشل اسٹوری کے نام پر کئی ماسڑ مائینڈ ڈھونڈھ لاتے ہیں اور سنسنی خیز خبریں سنسنی خیز انداز میں بیان کی جاتی ہیں، سب سے پہلے اور سب سے آگے کی بھاگ دوڑ نیز اچھی ریٹنگ کے چکر میں کتابت کی مضحکہ خیز غلطیاں اب عام ہونے لگی ہیں، صیح اور غلط کا امتیاز کئے بغیر چٹ پٹی اور مصالحے دار خبروں کے زریعے انسان کے فطری تجسس کو کچھ وقت کے لئے تسکین اور بعض اوقات کوفت اور اذیت کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی گلیمر کو فروغ دیا جا رہا ہے یہ ڈرامے ہماری نسلوں پر انتہائی برے اثرات مرتب کر رہے ہیں، اور نسلوں کی تباہی کا موجب ہیں۔
Electric Media
محبت میں ناکامی اور خود کشی جیسے واقعات کی تواتر سے تشہیر یقینا معاشرے پر کوئی مثبت اثر نہیں ڈالے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے والی خواتین اور محنت کش خواتین کے حالات زندگی کو زیادہ سے زیادہ بیان کیا جائے، فلمی ایکٹریسز اور بیہودہ اسٹائل منظر عام پرلانے یا میرا اور وینا ملک کو زیادہ نمایا ں جگہ دینے کی بجائے ان کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ مگر چونکہ کمرشل ازم کا تقاضا ہے اس لئے یقینا اس بات پر عمل کرنے میں مشکل پیش آئے گی اگر میڈیا ان سب کی بجائے اسلام کی پر امن اور خوبصورت تعلیم کو عام کر رہا ہوتا تو آج مغربی میڈیا بھی اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ نہ کر رہے ہوتے۔
اور اسلامی دہشت گردی، اسلامی بم، اسلامی انتہا پسندی جیسے الفاظ استعمال کرنے کی جرات نہ کرتا۔ سوشل میڈیا سے مراد سماجی رابطے کی ویب سائیٹس ہے پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے صحافی سوشل میڈیا سے جڑے ہیں سوشل میڈیا سب سے تیز رفتار اور پل بھر میں خبریں پہنچانے والا میڈیا ہے اب یہ پرنٹ میڈیا سے بھی زیادہ مقبول ہو رہا ہے اس کی وجہ بہت بڑی تعداد میں عوام الناس کا اس سے منسلک ہونا ہے۔ سوشل میڈیا میں آپ کو خبریں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ خبریں اور معلومات خود بخود آپ تک پہنچ جاتی ہیں چھوٹی سے چھوٹی خبر کو مقبول بنانے کے لئے صرف شئیر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس طرح وقت ضائع کئے بغیر پوری دنیا سے میل جول اور معلومات کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے ۔سوشل میڈیا تجارتی ،پیشہ وارانہ، اور ذاتی برینڈ سازی کے لئے زبر دست امکانات رکھتا ہے، اگر معیار کو مزید بہتر بنایا جائے تو اس سے زیادہ سے زیادہ مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں یہ معلومات کا ایک بہترین زریعہ ہے ایک سروے رپوٹ کے مطابق اس سے براہ راست on line کاروبار اور آمدنی 70سے 80 فی صد تک اضافہ ممکن ہے، سوشل میڈیا سے اردو زبان کی فروغ میں اضافہ ہوا ہے اگرچہ چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی اور پیشہ وارانہ تربیت کی کمی کی وجہ سے کتابت کی بہت سے غلطیاں یہاں بھی سرزد ہو رہی ہیں۔
بہت سے نوجوانوں نے وقت گزاری اور شوق کی خاطر اپنی نیوز کی ویب سا ئیٹس بنائی ہوئی ہیں ۔اور جنہیں وہ کامیابی سے چلا رہے ہیں ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ 4 لاکھ 13 ہزار افراد انٹر نیٹ کا استعمال کر رہے ہیں اس میں سے 30 سے 40 فیصد سوشل میڈیا کااستعمال کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا تعلیم یافتہ طبقے کے لئے بہت مفید ہے۔اس کو تعلیمی حصول کے لئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے سوشل میڈیا تک ہر ایک کی پہنچ ہے روایتی زرائع تک پہنچنے کے لئے ہنر مہارت تربیت اور خاص آلات درکار ہوتے ہیں اس کے بر عکس عام کمپیوٹر رکھنے والا انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والا فرد با آسانی اس کا استعمال کر سکتا ہے۔ میڈیا کوئی بھی ہو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے زیادہ سے زیادہ مثبت فائدہ اٹھا یا جائے۔ تحریر : مریم ثمر