مقبوضہ بیت المقدس (جیوڈیسک) اسرائیل نے امید ظاہر کی ہے کہ پولینڈ اور امریکا کی میزبانی میں وارسا میں منعقد مشرقِ وسطیٰ کانفرنس اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات میں بہتری میں کلیدی کردار ادار کر سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے بدھ کے روز پہلی بار عوامی سطح پر کہا کہ ان کے دور حکومت میں اسرائیل اور متعدد خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ پولینڈ میں منعقد ہونے والی مشرقِ وسطیٰ کانفرنس ان تعلقات میں مزید بہتری کا پیشہ خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
متعدد عرب ریاستوں کے اعلیٰ عہدیدار پولینڈ میں منعقدہ اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہ دیے جانے کی وجہ سے اس کانفرنس کو ’ایران مخالف اتحاد‘ کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہو گا کہ عرب ریاستیں اس کانفرنس میں فلسطینیوں کے لیے کوئی رعایت مانگتی ہیں، یا اس موضوع کو صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔
امریکا اور پولینڈ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا موضوع ’مشرقی وسطیٰ میں سلامتی اور امن‘ ہے، تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق بظاہر یہ کانفرنس خطے میں ایران کو تنہا کرنے کی ایک کوشش دکھائی دیتی ہے۔ ایران آج بدھ کے روز سے شروع ہونے والی اس کانفرنس کی مذمت کرتے ہوئے پہلے ہی اسے ’ایران مخالف‘ قرار دے چکا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ روس نے بھی اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی، جب کہ یورپی یونین کی امور خارجہ کی سربراہ فیڈریکا موگرینی بھی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہی ہیں۔
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق اس کانفرنس میں مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے تمام امریکی اتحادی ممالک شریک ہو رہے ہیں جب کہ پولینڈ کا موقف ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے اشتراکِ عمل میں اضافہ ہوا گا، جو روس کے خلاف تحفظ میں بہتر کردار ادا کر سکتا ہے۔
تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس کانفرنس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ہو سکتا ہے، جو متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے اقدامات میں مصروف ہے۔ باقاعدہ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود اسرائیل اور مختلف عرب ریاستوں کے درمیان اس سطح کے رابطے کو اسرائیلی حکومت کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔