تحریر: خرم امین سید ابوالاعلی مودودی نے 1959- 60 میں خرم امین عربیہ کا دورہ کیا اس سفر کے دوران انکے رفیق محمد عاصم نام کے غیر مقلد عالم تھے، سید ابوالاعلی مودودی صاحب نے سعودی عربیہ کی ہند نواز پالیسی اور پنڈت نہرو”مرحبا یا رسول السلام” کہنے پر سخت تنقید کی، محمد عاصم لکھتے ہیں 3 بجے کے قریب دوپہر کا کھانا ہوا، بالکل مغربی طرز پر مولانا نے کھانے کے دوران اپنی گفتگو میں عرب قومیت کے فتنہ کی خوب خبر لی اور ان لوگوں کو بتایا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کا معاملہ عربوں کے ساتھ اسرائیل کے معاملہ سے کسی طرح کم یا مختلف نہیں ہے، لیکن عرب قومیت کا نتیجہ یہ ہے کہ جب آپ کے اس ملک میں پنڈت نہرو آئے تو یہاں کے بہت سے اخبارات نے انہیں رسول السلام (امن کا پیامبر) کے لقب دیتے ہوئے انکا شاندار استقبال کیا، لیکن آپ ہی بتائیں کہ اگر پاکستان وزیر اعظم اسرائیل کو اپنے ہاں بلوائیں اور پھر اس کا اسی شان سے استقبال کریں تو آپ لوگوں کی کیا کیفیت ہو گی
امیر عبداللہ نے اس بات کی مذمت کی کہ بعض عرب حکومتیں ہندوستان کو پاکستان پر ترجیحی دیتی ہیں لیکن اپنی مملکت کے متعلق انہوں نے بتایا کہ یہاں بہر حال پاکستان کو مقدم سمجھا جاتا ہے، ایک اور جگہ عاصم صاحب لکھتے ہیں ایک نوجوان نے مولانا صاحب سے سوال کیا آپ پاکستانی حضرات نے عربوں کے قومی مسائل میں کیا کیا ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے عرب بھائیوں کے مسائل میں ہمیشہ انکی تائید کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن اس تائید کی بنیاد آپ لوگوں کایہ نعرہ ہے جسے آپ عرب قومیت کے نام پر لگا رہے ہیں، بلکہ اسکی بنیاد وہ دینی رابطہ ہے جو ہمارے ور آپکے درمیان اللہ تعالی نے قائم کیا ہوا ہے، آپ حضرات اس دینی رابطہ کو ختم کرنے کے درپے ہیں لیکن اسکے باوجود ہم اب تک اسکی پاسداری کر رہے ہیںاور آئندہ بھی کرتے رہیں گے
Pakistan
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس نے نا صرف فلسطین اور الجرائر بلکہ عربوں کے تمام دوسرے مسائل میں انکی تائید کی ہے لیکن آپ حضرات کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر قوم کوجو ایک خاص ملک میں رہتی ہو اسکے کچھ اپنے مسائل بھی ہوتے ہیںجس سے اسے بہر حال نپٹانا ہوتا ہے اگر آپ لوگوں کو فلسطین اور الجزائر یا دوسرے مسائل درپیش ہیں توہم پاکستانیوں کو بھی کشمیر کا مسلہ درپیش ہے، اگریہودئیوں نے آپکے 10لاکھ افراد کو قتل یا جلا وطن کیا ہے تو ہندوں نے ہمارے 1کروڈ کے قریب افراد کو قتل یا جلا وطن کیا ہے اور اب تک ہندوستان اور کشمیر میں انکے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے، آپ لوگ اپنی یاداشت پر ذور ڈال کر زرا مجھے بتائیے اس پورے المیہ میں آپ لوگوں نے ہماری کہاں تک تائید کی ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ اس کا کوئی جواب نہ دے سکیں گے، لہذا میں خود ہی اس کا جواب دیتا ہوں
آپ لوگوں نے ہماری مدد یوں کی ہے کہ جب ہندوستان وکشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی تو آپ لوگوں نے اپنی زبانوں پر قفل چڑھا لئے تھے آپ کے اخبارات نے اس کی مذمت میں چند سطریں لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس کے مقابلے میں پاکستان کے تمام اخبارات نے آپ لوگوں پر کسی طرف سے جو بھی زیادتی ہوئی اس کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور اب تک کر رہے ہیں کاش آپ لوگوں کی کرم فرمائی یہی تک محدود رہ جاتی مگر آپ نے اثباتی غیر جانبداری اور امن و سلامتی کے علمبردار (البطال الجہاد الابجابی ورسل السلام ) کا لقب دیتے ہوئے ان لوگوں کی طرف دوستی محبت کا ہاتھ بڑھایاجن کے ہاتھ اب تک مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، کاش ہندوستان کو آپ لوگوں کی دوستی کا واقعی پاس ہوتا مگر اس نے آپ کو کوئی وقعت نہ دیتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اب تک تسلیم کئے ہوئے ہیں، اس کے مقابلے میں پاکستان نے اب تک نہ اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی کبھی اسرائیل کے کسی باشندے کو اپنی سر زمین پر قدم رکھنے کی اجازت دی ہے
Israel
سوچئے اگر خدانخواستہ آپ لوگوں کی زد میں ہم لوگ بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور اس کے ساتھ دوستی و محبت کے واربط قائم کرنے لگیں اور وزیر اعظم اسرائیل کو اپنی ملک میں دعوت دیں اور اس کے لئے رسلی اسلام کے نعرے لگا کر اس کا استقبال کیا تو کیا اس صورت میں آپ لوگ ہمیں کچھ ملازمت نہیں رکھتے ہیں لیکن نہیں میں تو اس آپ لوگوں کے سامنے ایک مفروضہ کے طور پر بیان کر رہا ہوں ورنہ ہم پاکستانی مسلمان اس کا خیال تک دل میں نہیں لا سکتے اس لئے کہ ہمارا دین ہمیں اس کی ہر گز اجازت نہیں دیتالہذا مجھے امید اس مفروضہ کے ذکر سے آپ لوگوں کی دل ازاری نہیں ہو گی، برادران اسلام آج یمن کی صورت حال کے حوالے سے پاکستان میں دو واضع موقف موجود ہے ، ایک موقف یہ ہے کہ سعودی عرب فوج بھیجنی چاہئے دوسرا موقف یہ کہ فوج نہیں بھیجنی چاہئے آج لوگ اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل دے رہے ہیں، اور سعودیہ کے حق میں دینے والوں کا موقف ہے کہ یہ لڑائی یمن کا اندرونی نہیں بلکہ حرمین شریفین کی حرمت کا مسلہ ہے اور حرمین کی حرمت کیلئے ہم کٹ مرنے کو تیار ہیں اور سعودی حکومت کے ساتھ اس لئے ہیں کہ وہ خادم حرمین ہیں
دوسرے موقف کے لوگوں کے دلائل یہ ہیں کہ یہ حرمین کی حرمت کا معاملہ نہیں ہے ، بلکہ یہ اقتدار کی جنگ ہے اور اسے بلا وجہ حرمین کی حرمت سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ ناہی شیعہ سنی مسلہ ہے بلکہ یہ صرف ایک علاقائی مسلہ ہے قارئین مندرجہ بالا مولانا مودی کے سفر کا حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کس موقف کی تائید کریں تو ہمارا موقف یہی ہونا چاہئے کہ ملک پاکستان کو اپنی جغرافیائی، معاشی، سیاسی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئے اور اس جنگ سے اپنے آپ کو الگ ہی رکھنا چاہئے، اور جہاں تک رہی بات کہ خادم حرمین پر حملہ حرمین پر حملہ سمجھا جائے اور اسکی حفاظت کی جائے تو اس مسلے کو اسطرح سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اگر آپ سعود جو کہ آج سعودیہ کے حکمران ہیں وہ نسل در نسل اس منصب پر فائز نہیں ہیں بلکہ اگر آپ تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو آپکو پتہ چلے گا کہ ایک وقت میں انہوں نے بھی سعودیہ پر قبضہ کیا تھا اس قبضے کیک تفصیلات انشا اللہ پھر کسی وقت آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ اگر کبھی آل سعود کے خلاف سعودیہ میں ہی بغاوت ہو جاتی ہے اور وہاں کے لوگ جمہوریت کے حق میں اٹھ کھڑے ہوں فساد جنم لے لیتے ہیں
وہ بغاوت کرنے والے لوگ آل سعود کو قتل کر دیتے ہیں یا ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور حرمین کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں اور خود کو خادم حرمیکن ڈیکلیئر کر دیتے ہیںتو اس وقت افواج پاکستان حکومت پاکستان کیا فیصلہ کرے گی، یا کبھی سعودیہ کی فوج ہی آل سعود کا کوئی شہزادہ یہی فوج کی مدد سے اس وقت کے موجودہ بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے تو اس وقت پورا سعودیہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے تو اس وقت حکومت اور فوج پاکستان اس بغاوت میں کس کے ساتھ ہو گی؟ اور اگر باغی جیت جاتے ہیں تو کیا پھر بھی پاکستان اپنی فوج حرمین کی حفاظت کیلئے بھیجئے گا اور اگر بھیجے گا تو پاکستان کی فوج وہاں کب تک قیام کرے گی کیا تمام عرب باغیوں کے خاتمے تک ؟ کیا فوج صرف حرمین میں رہے گی؟ اور پھر حرمین کا قبضہ پاکستانی فوج کے پاس ہو گا اور پاکستانی فوج خادم حرمین کہلائے گی۔ یہ فیصلہ اب کرنا ہے کہ آل سعود کی حرمت ہم پر فرض ہے یا حرمین کی حرمت تمام مسلمانوں پر فرض ہے، یا قیامت تک کیلئے ہم نے آل سعود کو خادم حرمین مان لیا ہے، یا کوئی اور بھی اس منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔ اسلئے حکومت وقت کو چاہئے کہ فیصلے ذاتی دوستی ، ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی مفاد میں فیصلہ کریں۔