سعودی عرب (جیوڈیسک) سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل احمد العسیری نے کہا ہے کہ ان کی افواج نے کلسٹر ہتھیاروں کا استعمال بند کر دیا ہے۔انھوں نے وضاحت کی ہے کہ ان ہتھیاروں کو صرف فوجی اہداف کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے تا کہ سعودی عرب میں شہریوں کی ہلاکتوں سے بچا جاسکے۔
وہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس دعوے کا جواب دے رہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ دسمبر 2015ء سے جنوری 2016ء تک بی ایل 755 کلسٹر ہتھیار استعمال کیے گئے تھے۔احمد العسیری نے کہا کہ ”یہ یاد رہنا چاہیے کہ بین الاقوامی قانون کلسٹر ہتھیاروں کے استعمال پر مکمل پابندی عاید نہیں کرتا ہے”۔
انھوں نے سوموار کے روز ایک بیان میں کہا کہ ”بعض ممالک نے کلسٹر ہتھیاروں سے متعلق کنونشن 2008ء پر دستخط کررکھے ہیں،اس لیے وہ کلسٹر ہتھیاروں کو استعمال نہ کرنے کے پابند ہیں۔سعودی عرب یا اس کے اتحادی شراکت داروں نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔اس لیے ان کی جانب سے کلسٹر ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے”۔
ترجمان نے کہا کہ اتحاد نے یمن میں کلسٹر ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔برطانوی حکام اور دوسروں سے اس سلسلے میں تبادلہ خیال بھی کیا جارہا ہے۔
احمد العسیری کا کہنا تھا کہ ”یہ واضح ہوچکا ہے کہ اتحاد نے برطانوی ساختہ بی ایل 755 کلسٹر ہتھیاروں کا محدود پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔یہ ہتھیار جائز فوجی اہداف کے خلاف سعودی قصبوں اور دیہات پر حوثی ملیشیا کے مسلسل حملوں کو روکنے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ حوثی ملیشیا کے حملوں میں سعودی شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ عرب اتحاد نے ان ہتھیاروں کے استعمال کے وقت بین الاقوامی انسانی قانون کے امتیاز اور تناسب کے اصولوں کی مکمل پاسداری کی گئی تھی اور یہ ہتھیار شہری آبادی کے مراکز پر نہیں چلائے گئے تھے۔
انھوں نے سعودی عرب کی جانب سے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ اس نے برطانیہ کے ساختہ بی ایل 755 کلسٹر ہتھیاروں کا استعمال بند کردیا ہے اور برطانوی حکومت کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔