تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ایک میدان کپتان صاحب نے 2014ء میں ڈی چوک اسلام آباد میں سجایا اور ایک میدان وہ اب 2016ء میں سجانے جا رہے ہیں۔ کپتان صاحب کی گزشتہ اور موجودہ احتجاجی سیاست میں کئی مماثلتیں موجود ہیں۔ 2014ء میں خاں صاحب اپنی ”سونامی” لے کراٹھے تو وزیرِاعظم صاحب نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کااعلان کر دیا لیکن خاں صاحب نے اِس کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے وزیرِاعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
اب 2016ء میں وزیرِاعظم صاحب نے ”پانامہ لیکس ” کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن کااعلان کیاتو کپتان صاحب نے ایک دفعہ پھرتحقیقاتی کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے وزیرِاعظم کے استعفے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ اگر2014ء میںکپتان صاحب کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قبول نہیںتھا تواب اُسی کامطالبہ کیوں؟۔ 2014ء میں کپتان صاحب نے ڈی چوک اسلام آبادمیں 126 روزہ دھرنادیا اوراب وہ رائیونڈ میں دھرنا دینے جارہے ہیں 126 روزہ دھرنے نے ملک کو معاشی طورپرسالوں پیچھے دھکیل دیا۔
اقوامِ عالم میںہماری خوب جَگ ہنسائی ہوئی اورچین کے صدرکا دورہ منسوخ ہوا۔سونامیوںنے کھُل کھیلا ،کچرے کے ڈھیرلگائے ،تعفن پورے اسلام آباد میںپھیلا ،سپریم کورٹ کی دیواروںپر بچوں کے ”پوتڑے” سجائے گئے ،پارلیمنٹ کے گیٹ ٹوٹے ،پی ٹی وی اور وزیرِاعظم ہاؤس پرقبضے کی کوششیں کی گئیں ،ایک نجی ٹی وی پر ہرروز خشت باری کی جاتی رہی اورفُٹ پاتھوں کی اینٹیں تک اکھاڑلی گئیں۔ اب کی بارکپتان صاحب کا پروگرام شایدلاشوںپر سیاست کرنے کاہے کیونکہ وہ رائیونڈ میں وزیرِاعظم صاحب کے گھرپر دھرنا دینے جارہے ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے چاہنے والے اب بھی بہت ہیںاور”ڈَنڈی پَٹی” قائم بھی ۔اُن میںسے کسی کابھی تعلق ”بَرگَر فیملی” سے ہے نہ ”مَمی ڈیڈی” فیملی سے۔ گویا براہِ راست تصادم کی فضاء پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ لاشوںپر اورلاشوںکی سیاست کی جا سکے ،ملکی وقومی مفادجائے بھاڑمیں۔ 2014ء میںبڑی شد ومَد کے ساتھ امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کاانتظار کیاجا رہاتھا ۔یہ انتظار اب بھی کیا جا رہا ہے۔
Sharif Family
ہو سکتا ہے کہ اب کی بار خاں صاحب کی خواہش کے عین مطابق امپائرکی انگلی کھڑی ہوہی جائے لیکن ایساہونے سے کپتان صاحب کے ہاتھ توبہرحال پھربھی کچھ نہیںآئے گاالبتہ یہ ضرور کہ ”بی بی جمہوریت” اپنے گھر سدھارے گی اورمسندِ اقتدار اُن سے کوسوںدور ہوجائے گی ۔لیکن اُنہیںکیا ،اُن کے نزدیک ”ابھی توپارٹی شروع ہوئی ہے”۔ شایدہمارے کپتان صاحب کوادراک ہوچکاکہ اقتدارکے اونچے ایوان اُن کے لیے خواب وخیال ہی رہیںگے اِس لیے اب وہ ”کھیڈاںگے نہ کھیڈن دیاں گے” پرعمل پیراہیں ۔2014ء میںپیپلزپارٹی (تماشہ دیکھنے کے لیے) ڈَٹ کر نوازلیگ کے پہلو میںبراجمان تھی ،جو اب بھی ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ اب وہ عمران خاںکے پہلومیں ایستادہ ہے ۔تَب ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک کپتان صاحب کی ”کزن” بنی بیٹھی تھی ،اب یہ اعزاز پیپلزپارٹی کوحاصل ہے ۔تَب پیپلزپارٹی اپنی کرپشن چھپانے کے لیے حکومتی” آڑ” لیے ہوئے تھی۔
اب اپنی بے نقاب ہوتی کرپشن سے جان چھڑانے کے لیے حکومت کو ”ٹَف ٹائم” دینے کے لیے کمربستہ۔ 2014ء میں الزام 2013ء کے انتخابات میںدھاندلی کاتھا جس پرعدالتی کمیشن بھی بنالیکن کپتان صاحب کے کچھ ہاتھ نہ لگااور وہ اپناسا مُنہ لے کررہ گئے ۔اب الزام” پانامہ لیکس” میںوزیرِاعظم کے بچوںحسین نواز ،حسن نوازاور مریم نوازکا نام آنا۔وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تحقیقاتی کمیشن کااعلان کردیا لیکن ”میںنہ مانوں” کی رَٹ بدستور ۔دراصل کپتان صاحب کو سڑکوںپر آنے اور ” ہَلّا گُلّا” کرنے کاشوق ہی بہت ہے ،یہ سوچھے سمجھے بغیرکہ اِس سے ملکی ترقی کوکتنا نقصان ہوگا اورجمہوریت کوبھی ۔ویسے خان صاحب کے مطالبات ہمیشہ ہی عجیب وغریب رہے ہیں ۔ قارئین کویاد ہوگا کہ جب پوری قوم اورسیاسی جماعتیں طالبان کے خلاف متحدتھیں ،تب کپتان صاحب نے یہ مطالبہ” کھڑکا” دیا کہ پہلے اُن کی علیحدگی میں چیف آف آرمی سٹاف اور وزیرِاعظم سے ملاقات کروائی جائے ،پھروہ آل پارٹیز کانفرنس میںشریک ہوں گے۔
طوہاََ وکرہاََ یہ ملاقات کروادی گئی ۔تَب ”انوکھے لاڈلے” نے اے پی سی میںشرکت کی ۔اب ایک اور عجیب وغریب مطالبہ ،ایسا مطالبہ جس کی پاکستان میںنظیر نہیںملتی ،یہ سامنے آگیا کہ اُنہیں پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کاموقع دیاجائے ۔یہ مطالبہ ہی نہیںبلکہ اعلان ہے کہ کپتان صاحب 10 اپریل کوشام 6 بجے قوم سے خطاب کریںگے ۔تحریکِ انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق نے پی ٹی وی کے قائم مقام مینیجنگ ڈائریکٹر کوہنگامی مراسلہ جاری کیاہے کہ کپتان صاحب کے قوم سے خطاب کاانتظام کیاجائے ۔بسم اللہ ! وہ ایساضرور کریں لیکن پہلے اپنی ”تازہ بہ تازہ” اتحادی پیپلزپارٹی سے اجازت تولے لیں ۔اُس کے چیئرمین بلاول زرداری نے تویہ اجازت دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہہ دیاکہ کپتان صاحب صدر ہیں نہ وزیرِاعظم اورنہ ہی اپوزیشن لیڈر پھر اُنہیں پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کی اجازت کیوں دی جائے۔
Bilawal Bhutto
غلطی بہرحال ارسطوانِ نوازلیگ سے بھی ہوئی جنہیں پتہ نہیں کِس حکیم نے یہ مشورہ دیاکہ پی ٹی وی پر پارلیمنٹ کی کارروائی براہِ راست نہ دکھائی جائے ۔پتہ نہیںیہ مشورہ تھا، حماقت یا شرارت، بہرحال جلتی پہ تیل کاکام اِسی نے کیا ۔یہی نہیں بلکہ شکوک کے سنپولیے اذہان کوبھی اپنی گرفت میں لینے لگے کہ ”کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے”۔ اگرخاں صاحب کوپی ٹی وی پرخطاب کاموقع مل جاتاہے توپھر ہماری تویہی خواہش ہوگی کہ وہاں اپنی تقریرکے ساتھ ”میوزیکل کنسرٹ” کااہتمام بھی ضرورکریں کیونکہ ہمیںبھی مفت میںمیوزیکل کنسرٹ دیکھے ہوئے مدت ہوگئی ۔کیا خوب رہے گاجب کپتان صاحب ایک جملہ عطا فرمائیں گے اورایک تان عطا اللہ عیسیٰ خیلوی چھوڑیں گے ۔
ہمیں کچھ کچھ یادپڑتا ہے کہ اپنے دَورِ عروج میںایم کیوایم نے علامہ طاہرالقادری کی حمایت میںرائے ونڈجانے کا نعرہ لگایاتھا لیکن پھر پتہ نہیں کیاہوا کہ اُس احمقانہ نعرے کی کہیںگونج بھی سنائی نہیںدی۔اب یہی اعلان کپتان صاحب کا ہے جوضدّی بھی ہیںاور ہَٹ دھرم بھی اِس لیے وہ اپنے اِس اعلان پرعمل درآمد کی کوشش ضرورکریں گے اِس لیے نوازلیگ کوجہاںتک ممکن ہوسکے صبرسے کام لینا ہوگا ۔یہ توبہرحال طے ہے کہ کپتان صاحب دَس بارجنم لے کربھی میاںنواز شریف کے گھرتک نہیںپہنچ سکتے لیکن خواجہ سعدرفیق جیسے جذباتی وزراء کوبھی سوچ سمجھ کرہی بیان دیناچاہیے۔خواجہ صاحب نے کہاہے ”تیترخاں” رائیونڈ کی طرف مُنہ کرکے تودکھائے، لوگوں کو بنی گالہ کاراستہ بھی آتاہے ۔ناچنا ،گانا ،تھرکنا پاکستان کا کلچرنہیں” ۔وہ ایسے جذباتی بیانات تحریکِ انصاف کے لیے چھوڑدیں توبہتر ہے۔حرفِ آخریہ کہ قوم یقیناََ یہی چاہتی ہے کہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوہی جائے ۔اگرمیاںفیملی قصوروار ٹھہرتی ہے توپھرکون بَدبخت ہوگا جواُن کی حمایت میں کھڑا ہو گا۔