تحریر : انجینئر افتخار چودھری اسے اعزاز سمجھوں یا بوجھ کے اس دن ممتاز صحافی اور دانشور نے فون پر کہا کہ کتاب تو آپ کو مل ہی چکی ہے اس پر لکھئے گا۔ کتاب کو جب غور سے پڑھا تو اس میں جناب شریف بقا، غلام صابرِاور ڈاکٹر غلام حسین کے تبصرے دیکھ کر جی چاہا کہ اس بھاری پتھر کو ہاتھ لگا کر چھوڑ دوں میرے آئیڈیل ڈاکٹر صفدر محمود ،طارق اسمعیل ساگر نے بھی قیمتی الفاظ لکھے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن سے قاری پاکستانیت سیکھتا ہے میں کیا میرا شوربہ کیا جناب انور مسعود جب کسر نفسی سے کام لیتے ہیں تو یہ جملہ استعمال کرتے ہیں۔آڑھے ترچھے لفظوں کو استعمال کرنے کا فن آتا نہیں لیکن کوشش کرتے رہتا ہوں۔
ویسے بھی ملک سے باہر رہنے والوں کے بارے میں برادر روف طاہر جو بڑے اچھے دوست ہیں ان کا سنایا ہوا ایک لطیفہ یاد آ جاتا ہے کہتے ہیں ایک سردار صاحب کیلا چھلکے سمیت کھا رہے تھے کسی نے کہا سردار جی چھلکا تو اتار لیتے تو جواب ملا آپاں نوں پتہ آ کہ اندر کیلا ای ائے(یعنی ہمیں علم ہے کے اس کے اندر کیالا ہی ہے)۔میں کتاب پڑھے بغیر بھی لکھ سکتا تھا کہ کمال لکھا ہے،اس لئے کے باہر کے ملک میں رہنے والا پاکستان ،اسلام دو قومی نظریے کے سوا لکھے گا بھی کیا۔جس بندے نے پچاس درجے پلس اور مائینس کے موسم میں پاکستان ہی لکھنا ہے چاہے وہ ایمسٹرڈیم میں ہو ٹورنٹو،لندن ریاض دبئی جدہ اس کے ہاتھوں کا لکھا اور ہو گا بھی کیا؟سچ پوچھیں میں ٣٠ سال وطن سے باہر رہا لیکن تیس گھڑیاں بھی وطن سے باہر نہ تھا۔میری طرح ہر پاکستانی کو اپنی گلیاں اپنی کسیاں کھڑپے ترپے موڑ چوک چوبارے یاروں کے ساتھ گزرے لمحات کبھی نہیں بھول سکتے۔ وطن کے موسموں کی یاد میں زندہ رہنے والے یہ لوگ اگر نہ ہوتے تو ہم صرف زرداری اور نواز ہی رہ جاتے۔
Imran Khan
میں تو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ چودھری رحمت علی اگر لندن نہ جاتے تو پاکستان کا نظریہ اور اس کا نام نہ تخلیق کر پاتے،جناب علامہ اقبال یورپ کی فضائوں کا مزہ نہ چکھتے تو آفاقی اور اسلامی شاعری نہ کر پاتے اور جناب قائد اعظم بھی تو وہیں جا کر جان پائے کہ پاکستان لے کر ہی گزارہ ہو گا۔عمران خان احسن رشید بھی ملک سے باہر رہے اور پاکستان یت کی بیٹری چارج کروا کر لوٹے ان کی وطن سے محبت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ہمارے ایک دوست نور جرال ہیں جدہ میں رہے پاکستان کے گن گاتے رہے ایک ہجرت راس نہ آئی دوسری کر گئے۔ریال سے ڈالر کی طرف جانا ٹھہرا مگر پاکستان ان کے ساتھ ساتھ رہا ان کا ایک قطعہ ان باہر رہنے والوں کی نظر کرتا ہوں اور خاص طور پر افکار تازہ کے مصنف جناب عارف محمود کسانہ کو پیش کرتا ہوں
تلاش رزق ہی ہجرت کا اک بہانہ ہے وطن سے دور یہ اک عارضی ٹھکانہ ہے ہم اپنے کچے مکاں بیچ کر نہیں آئے ڈھلے گی شام تو پھر گھر کو لوٹ جانا ہے
بس اس شعر میں ڈھلے گی شام کا معنی مجھے آج سمجھ آئے ہیں یہ وہاں باہر کے ملک میں کسی معاشی خوش حالی کے خاتمے کی نوید نہیں ہے۔باہر کا پاکستانی اس وقت پاکستان آئے گا جب یہاں کے پانامہ سکینڈل میں الجھے لوگ سرے محل کے مالکان کے ظلم و ستم کی شام ڈھلے گی۔ عارف محمود کسانہ سویڈن گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔وہاں کے جمہوری نظام کے گن گاتے میرے اس دوست کے کالموں کا مجموعہ جب میں پڑھ رہا تھا تو حیرت اس بات پر ہوئی کہ کیسا مستقل مزاج شخص ہے جو کئی برسوں سے اپنے گھر میں درس قران کی محافل بھی سجاتا ہے میڈیکل کے شعبے میں تحقیق کے لئے وقت بھی نکالتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی نہیں بھولتا ان کی تربیت کے پیاری پیاری سی کہانیاں بھی لکھتا ہے۔عارف کسانہ صاحب میں کتاب بینی پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہوں جس گھر میں کتاب نہیں ہوتی وہ گھر نہیں قبرستان ہوتے ہیں۔
آپ کی کتاب مجھے دو بار مفت مل چکی ہے کتاب میں جمع کئے ہوئے کالم جگنو ہیں اندھیرا کتنا بھی ہو ان جگنوئوں سے روشنی مل ہی جاتی ہے۔ میری رائے ہے اقبال کے شعر پر تضمیم نہیں ہونی چاہئے۔آپ فکر اقبال کے داعی ہیں بس محسوس نہ کیجئے گا دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تو مشورہ بھی ضروری ہے۔کتاب میں قرانی حوالوں سے آپ نے مجھ جیسے شخص کی معلومات میں اضافہ کیا ہے۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ حوا نامی خاتون جسے ہم اولیں ماں کا درجہ دیتے رہے اس کا ذکر اللہ کی پاک کلام میں سرے سے ہے ہی نہیں۔میں جدہ میں تین عشرے مقیم رہا حاجی حسین علی رضا بلڈنگ کے پاس مقبرے میں اماں حوا کی قبر کا بتایا جاتا رہا۔ہمارے سینکڑوں وزٹ ایسے ہی چلے گئے۔آپ کے کالموں میں انڈیا کے چہرے سے نقاب اتارا گیا جمہوری کلچر کا وہ سیاہ نقاب جو اس نے سکم حیدر آباد کشمیر جوناگڑھ اور مناور سمیت پانچسو ریاستوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا۔
بھارت در اصل چانکیائی سیاست کا ایک کالا رخ ہے جو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا۔ہماری نوجوان نسل کو کون بتائے گا کہ ریاست حیدر آباد کو بھارت نے اس وقت خون میں نہلا دیا جب قائد اعظم کی قبر کی مٹی سوکھ رہی تھی۔اس نے پاکستان کو دو لخت کیا۔میں جب آپ کے یہ الفاظ پڑھ رہا تھا تو مجھے اپنے وزیر اعظم یاد آ گئے جو ہند میں جا کر کہتے رہے کہ ہم میں اور آپ میں فرق ہی کیا ہے آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں مجھے بھی پسند ہے آپ بھی اسی رب کو پوجتے ہیں جسے ہم پوجتے ہیں۔عارف محمود کسانہ صاحب یورپ میں مقیم پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ لوگ مشین بن گئے ہیں انہیں اپنی اولادوں کا سنبھالنے کا ہنر بھول رہا ہے۔ہر کوئی گھنٹوں منٹوں میں پھنسا ہے میں سلام پیش کرتا ہوں آپ کی اس کاوش کو جو آپ نے جنگ لندن اوصاف اور دیگر اخبارات لکھے۔آپ کامیاب ہیں کہ تحریری شکل میں اسے پیش کر دیا۔
Pakistan
مجھے محسوس ہوا کہ آپ بھی انہی راستوں سے ہو کر نکلے ہیں جن پر میں بھی چلا اردو پنجابی مباحثے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی بزم آرائیاں مشاعرے قومی تقریبات یہ چیزیں آپ کو مشعل بردار بناتی ہیں۔ہم تو شائد ابھی تک اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اللہ نے آپ پر کرم نوازی کی آپ نے کچھ کر دکھایا۔بس ایک چیز کبھی کبھی حوصلہ دیتی ہے مکھی مچھر بجلی کی عدم دستیابی حکمرانوں کی چیرہ دستیاں اور ان سب خرافات کے مقابلے میں میدان میں آ کر ڈٹ جانا اس کے بھی اپنے ہی مزے ہیں۔شوگر اپنی جگہ مگر ظالم کے خلاف لڑنے کی مٹھاس کا مزہ ہی اور ہے۔آپ کی دعائیں چاہئیں آپ اچھی طرح تیار ہو کر سوٹ شوٹ پہن کر دفتر جائیں واپس آئیں خوبصورت دوستوں کی محفلوں میں واپس آئیں ہم نے تو اپنی اور اہلیہ کی زندگی اجیرن بنا دی بھابھی نے آپ کا بھرپور ساتھ دیا ساتھ تو ہمیں بھی ملا مگر ہم اس قافلے میں آن کھڑ ہوئے جس کے سپہ سالار نہے گھر بار برباد کیا صرف پاکستان کے لئے سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں۔
میں بات کر رہا ہوں عمران خان کی جو خانماں برباد ہو کر پاکستان کو آباد کرنے کی لڑائی میں مصروف ہے۔ہم اس برباد کے ساتھ برباد ہو کر پاک سر زمین شاد با د کے سفر پر جانے کی تیاری میں ہیں۔ ستمبر ٣٠ ستمبر دم دم گے اندر ہے آپ کی افکار تازہ ختم کر کے ہی رائے ونڈ جا رہا ہوں۔اس کتاب سے نئی فکریں نئی جہتیں ملی ہیں۔ہاں یاد آیا کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں ہیں پروف ریڈر سے کچھ صرف نظریاں ہوئی ہیں ۔مجھے آج سید مودودی بھی یاد آئے جنہوں نے ٧٠ کے الیکشن ہارنے کے بعد جناب ضیاء شاہد اور دیگر جوانوں سے کہا تھا میرا اللہ مجھ سے میری کوشش کا پوچھے گا یہ نہیں پوچھے گا کہ کتنی سیٹیں جیتیں؟کوشش کرتے رہئے گا آپ ادھر خوبصورت موسموں کے شہر سویڈن میں ہم سڑکوں پر افکار تازہ سے روشنی لے کر۔کبھی موقع ملا تو ضرور اس ملک کو بھی دیکھیں گے جہاں کی تصویر آپ نے ہمیں دکھائی۔
یہ تحریر آپ کے لئے بھی ہے اور آپ کی کتاب کے ساتھ ساتھ وطن سے دور میرے اپنے شکلی اور دلدار جیسے لاکھوں بچوں کے لئے بھی جن کے دم قدم سے یہ پاکستان کی لالٹین روشن ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ان ظالموں کو کوکا کولا میں حب الوطنی کا سفوف ملا کر پلائوں تا کہ انہیں بھی علم ہو کہ پردیسیوں کی زندگیاں کیا ہوتی ہیں یہ وہ ظالم ہیں جنہوں نے شکم سیری کی لالچ میں مائوں سے بچے دور کئے۔زیادہ لکھئے اپنی تحریروں میں اسلام پاکستان دو قومی نظرئیے کی خوبصورتی کو شامل رکھئے۔
کتاب niks.mirpur@gmail.com 009234456663463 پر رابطہ کر کے مل سکتی ہے قیمت بوقت اتباع ٤٠٠ روپے تھی ٢٧١ صفحات پر مشتمل ہے