تحریر : شاہ فیصل نعیم اُس کے دونوں بازو ٹوٹ چکے تھے، ہاتھ اس قدر زخمی تھے کہ ہڈیاں نظر آ رہی تھیں، چہرہ خون میں لوتھڑا ہوا تھااوربالوں کو دیکھتے ہوئے دماغی حالت مشکوک لگتی تھی ۔ وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اُسے دیکھتے ہوئے ایسے لگتا تھا جیسے کوئی ناہنجار آدم زاد اُسے گاڑی تلے روندتے ہوئے نکل گیا ہو۔ یوں زندگی تڑپ رہی ہو تو زندگی تڑپ اُٹھتی ہے کسی راہ چلتے کا جذبہ انسانیت زندہ ہو ہی جاتا ہے۔
خدا کسی کے دل میں یہ بات ڈال ہی دیتا ہے کہ اس زندگی کے ختم ہونے کا ابھی وقت نہیں آیا جائو اسے طبیب کے پاس لے جائو اور اُسے کہنا کہ اسے جامِ شفا پلائو اور میرے بندے کے دل میں دفن احساس کو زندہ کرنے کے لیے کہو کہ تم اگلی دنیا میں پہنچنے کے قریب تھے کہ خدا نے تجھے پھر مہلت دے دی۔ وہ دن جو مزید تجھے ملے ہیں اُن کی اہمیت کو جان اور وجہِ تخلیقِ انسان کو پہچان تاکہ تجھ پر راز آدمیت عیاں ہوں۔ تڑپتی زندگی کو سمیٹ کر ہسپتال تک پہنچانے کا حوصلہ بھی ہر کسی میں نہیں ہوتا اور اس کے لیے معاشرہ ہی ذمہ دار نہیں ہمارے ملک کا اندھا قانون خدا ترسی کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے جو اصلی مجرم کو ڈھونڈنے کی بجائے مدد کرنے والے کو ہی تختہ دار پر لٹکا دیتا ہے۔
اس سے پہلے کے کہانی بکھرنے لگے لوٹتے ہیں خون میں لوتھڑی اُس عورت کی طرف جو کسی کی مدد کی منتظر سڑک کنارے پڑی ہے۔ ہجوم سے ایک انسان آگے بڑھتا ہے ، عورت کو رکشہ میں ڈالتا ہے اور ہسپتال لے آتا ہے۔ وہ شخص عورت کو لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہا ہے مگر اُسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس وارڈ میں جائے سرکاری ہسپتالوں میں خاص کر صیح وارڈ کا انتخاب اشد ضروری ہے۔
Hospital Ward
صیح وارڈ میں جانے کے باوجود انسان کو کتنے چکر لگانے پڑتے ہیں اُس کا درد صرف وہی بتا سکتا ہے جس کا پالا سرکار سے پڑا ہو ۔ بھاگ دوڑ کرتے انسان کو ایک نوجوان دیکھ رہا تھا جس کا تعلق سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ سے تھااُس نے سوچا کہ زخمی عورت جواس شخص کے ساتھ ہے اُس کی ماں ہے ۔ وہ نوجوان قریب آیا اُس سے تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ اُس عورت کا کوئی والی وارث نہیں سوائے اُس وارثوں کے وارث کے۔ وہ نوجوان کہنے لگا: “بھائی ! اب آپ جائیں باقی کی ذمہ داری آپ مجھ پر چھوڑدیں”۔ اُس نوجوان نے اُس عورت کو لیا فارم بھرتے وقت اپنے آپ کواُس کا وارث لکھا، جہاں جہاں سے دوا لینے کی ضرورت تھی دوا لی ، خون آلود چہرہ صاف کروایا ،پٹیاں کروائیں، ٹوٹے ہوئے بازئوں پر پلستر لگوایااور اُس ہسپتال میں داخل کروایا۔
وہ دردِ دل رکھنے والا نوجوان علیم میرا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی عمر سے کہیں بڑا انسان ہے۔ وہ آج مجھے بتا رہا تھا: “شاہ جی ! آج جب میں اُن ماں جی سے ملنے گیا تو اُس نے مجھے ڈھیروں دعائیں دی،اپنی زندگی کو میری دین کہا۔۔۔مگر شاہ جی ! میں نے تو کوئی بڑا کام نہیں کیا ۔ میں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے ۔انسان ہونے کے ناتے مخلوقِ خدا سے انسانیت کا رشتہ نبھایا ہے”۔ میں انسان ہوں میری سمجھ میں کیا آئے گا۔
مگر اپنی بنائی اس دنیا میں جو کھیل خدا کھیل رہا ہے اُسے بحثیتِ تماشائی دیکھتا رہتا ہوںاور سوچتا رہتا ہوں۔ ایک گورکھ دھندے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں!! آخر میں میں ارباب ِ اختیار کی توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف ضرور کرائوں گا کہ وہ لوگ جو سوزِ انسانیت کے تحت زخمیوں کو ہسپتال لیکر آتے ہیں اُن کو ہی جیل میں نا ڈال دیا جائے بلکہ پولیس کو چاہیے کہ اصلی ملزم کو پکڑے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ملزمان کو سزا دلوائے۔