لورالائی (جیوڈیسک) صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکن ارمان لونی کا پوسٹ مارٹم سول اسپتال کوئٹہ میں مکمل کر لیا گیا ہے۔ آخر پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی تک کیوں تیار نہیں ہو سکی۔
سول اسپتال کوئٹہ کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر زبیر نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ارمان لونی کی ہلاکت کے حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ معاملہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد فرانزک ماہرین سیمپلز کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس کی مکمل رپورٹ آنے میں ایک مہینہ بھی لگ سکتا ہے۔ اب تک پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا رہی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
لورالائی پولیس نے آرمان لونی کے خاندان کی جانب سے دی گئی درخواست پر اب تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی اس ضمن میں مقدمہ باضابطہ طور پر درج کیا جائے گا۔
ڈاکٹر زبیر نے ڈی ڈبیلو کو مزید بتایا کہ ارمان لونی کی ہلاکت کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے،’’اس طرح کی پوسٹ مارٹم رپورٹس کی تیاری کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ یوں سمجھیے یہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے کیونکہ تمام باریکیوں کو دیکھتے ہوئے ارمان لونی کی موت کی وجوہات معلوم کی جا رہی ہیں۔ میڈیکل سائنس میں اس نوعیت کی موت کی وجوہات جاننے کے لیے متعلقہ سیمپلز کے کئی زاویوں سے مشاہدے کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے ایسی موت کی تفصیلی رپورٹ تیار کرنے میں توقعات سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔‘‘
ارمان لونی کی ہلاکت کے خلاف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں آج احتجاج شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ہے۔ ہڑتال کی کال پشتون قوم پرست جماعت پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کی جانب سے دی گئی تھی۔ گزشتہ روز صوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس ہڑتال کے باعث صوبے کے بیشتر اضلاع میں تمام کاروباری مراکزاحتجاج بند رہے اور سڑکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کم دیکھی گئی۔ لونی کی ہلاکت کے خلاف وکلاء تنظیموں نے بھی آج بروز پیر صوبے بھر میں عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کیا۔
پی ٹی ایم رکن ارمان لونی کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کے بعد بلوچستان کے وزیر داخلہ نے پہلی بار آج میڈیا کو بریفنگ بھی دی۔ کوئٹہ میں بریفنگ کے دوران صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے بتایا کہ حکومت بلوچستان ارمان لونی کے خاندان کے غم میں برابر کی شریک ہے اور اس ضمن میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔
انہوں نے کہا،’’یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے اور ہمیں احساس ہے کہ ارمان لونی کے خاندان کے لوگ اس وقت کس کرب کا شکار ہوں گے۔ لیکن ہمیں اس معاملے پر سیاست کے بجائے زمینی حقائق کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ پی ٹی ایم رکن کی ہلاکت ایک احتجاج کے دوران ہوئی ہے۔ اس ضمن میں کسی ایک فریق کے موقف پر ٹھوس شواہد کے بغیر کسی کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جا سکتا ہے ؟ ارمان لونی کی ہلاکت کی وجوہات سامنے آنے کے بعد ہی باضابطہ کارروائی کی جائے گے۔‘‘
ضیاء اللہ لانگو نے بتایا کہ گزشتہ روز ارمان لونی کی تدفین کے موقع پر بد امنی پھیلانے کی ایک بڑی کوشش ناکام بنائی گئی ہے۔ ان کے بقول،’’پی ٹی ایم کے رہنماء منظور پشتین سمیت جن دیگر رہنماؤں کے بلوچستان میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے اس کا فیصلہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد کیا گیا تھا۔ پی ٹی ایم رہنماؤں نے کل قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود حکومت نے انہیں تدفین میں شرکت کی اجازت دی۔‘‘
وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں نے اگر آئندہ پابندی کے باوجود بلوچستان آنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف ضابطے کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔
دوسری جانب پی ٹی ایم کی سینیئر رہنماء اور کور کمیٹی کی ممبر ثناء اعجاز نے ارمان لونی کی ہلاکت کو مبینہ ٹارگٹ کلنگ سے تعبیر کرتے ہوئے پیش کیے گئےحکومتی موقف کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ارمان لونی کو ایک منظم طریقے سے سر پر وار کر کے قتل کیا گیا ہے۔ ان کی ہلاکت پر حکومتی موقف ایک بے بنیاد دعوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں جو دعوے کیے گئے ہیں وہ نہ صرف حقائق کے برعکس ہیں بلکہ اس قتل میں ملوث اہلکاروں کو بچانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ ہم پہلے دن سے یہ کہہ رہے تھے کہ حکومت اس کیس میں فریق بن رہی ہے اس لیے انصاف کی ہمیں کوئی توقع نہیں تھی۔ پشتون تحفظ موومنٹ کو اب باضابطہ طور پر پر تشدد کارروائیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش شروع کر دی گئی ہے۔‘‘
ثناء اعجاز نے مزید کہا کہ ارمان لونی کی ہلاکت کو ریاستی ادارے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لے رہے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکھیں کہ اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف پشتون قوم کس حد تک منظم ہو سکتی ہے؟ ان کے بقول، ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کی دعویدار پاکستانی حکومت نے پشتون سرزمین کو ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ پی ٹی ایم کی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے لی ایک منظم منصوبے کے تحت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہماری کور کمیٹی کے ممبران کو گزشتہ چھ ماہ سے مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ہمیں صرف یہ نہیں معلوم تھا کہ راستے سے پہلے کسے ہٹایا جائے گا؟ نقیب محسود کے قتل کے بعد ریاست یہ دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر پی ٹی ایم کے سرکردہ رہنماؤں اور ممبران کو راستے سے ہٹانے کا عمل شروع کیا جائے تو اس کا رد عمل کیا ہوگا؟ ‘‘
ثناء اعجاز نے بتایا کہ پشتون تحفظ موومنٹ عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے اور ہمشیہ پر امن احتجاج کے ذریعے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ارمان لونی کے خاندان کو انصاف دلانے کے لیے جاری پی ٹی ٹی کی پرامن جدوجہد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ پشتون عوام اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ انہیں اس حق سے دستبردار کرانے کے لیے ریاستی سطح پر جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ پاکستان میں حقوق کے لیے جس وقت بھی آواز بلند کی گئی ہے اسے طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے ریاستی کردار ہمیشہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔‘‘
پشتون تحفظ موومنٹ قلعہ سیف اللہ کے ایک اور سینیئر رکن حکمت ایثار نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ لونی کا مبینہ قتل پشتون عوام کو احتجاج سے دور رکھنے کی کوشش ہے، ’’ریاست اب اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ اپنے ہی پر امن شہریوں کو صرف اس لیے راستے سے ہٹایا جا رہا ہے کیونکہ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ ارمان لونی کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اسے مقامی لوگوں نے بھی دیکھا ہے۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں کی کسی ٹارچر سیل میں پیش آیا ہو۔ جو اہلکار اس قتل میں براہ راست ملوث ہیں انہیں ابھی تک معطل بھی نہیں کیا گیا۔ اس وقت ملزم ہی منصف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘
حکمت ایثار کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اگر واقعی ارمان لونی کے خاندان کو انصاف فراہم کرنا چاہتی ہے تو واقعے کے ذمہ داران کو معطل کر کے اس ضمن میں تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔
واضح رہے کہ لورالائی میں پی ٹی ایم رکن ارمان لونی کی ہلاکت کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اڑتالیس گھنٹوں میں کمشنر ژوب ڈویژن کو تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنی کی ہدایت کی تھی مگر یہ رپورٹ ابھی تک وزیراعلیٰ کو پیش نہیں کی گئی ہے۔