اسلام آباد (جیوڈیسک) اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ آرمڈ فورسز اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔عدالت نے یہ سوال بھی کیا ہے کہ ان اہلکاروں کے خلاف مقدمہ سول عدالت میں چلنا چاہیے یا فوجی عدالت میں جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ نے گزشتہ روز اٹارنی جنرل سے قانونی رائے طلب کی تھی کہ کیا۔
فوجی اہل کاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے ، آج اپنے جواب میں اٹارنی جنرل نے پاکستان آرمی ریگولیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مسلح افواج کے اہل کاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بھی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کوئی دوسرے رائے نہیں ہوسکتی۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرونگ پرسنلز پر ایف آئی آر ہو سکتی ہے۔
تاہم یہ سوال جواب طلب ہے کہ ان اہلکاروں کے خلاف ٹرائل فوجی عدالت میں چلایا جائے گا یا سول میں، عدالت نے فوجی اہل کاروں کے ٹرائل کے بارے میں بھی فوری جواب طلب کیا۔جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا۔
کہ مجسٹریٹ اگر گرفتار فوجی اہلکار کو فوجی حکام کے حوالے کرئے تو اسے وجوہات بیان کرنی ہونگی۔مجسٹریٹ کو اپنا دماغ بھی استعمال کرنا چاہیئے، اسے خود کو کمانڈنگ آفیسر کا ماتحت نہیں سمجھنا چاہیئے۔ مقدمات کمانڈنگ آفیسر کے کہے پر نہیں چلنے چاہیئں ۔