آرمینیا (اصل میڈیا ڈیسک) آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین ماسکو میں طویل مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں فائر بندی پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ تاہم فریقین نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے ہفتے کی صبح بتایا کہ ماسکو میں آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین دس گھنٹوں سے بھی زائد جاری رہنے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور فریقین جنگ بندی اور با معنی مذاکرات شروع کرنے پر متفق ہو گئے ہيں۔
لاوروف نے بتايا کہ دونوں ممالک کی افواج آج ہفتہ دس اکتوبر کی دوپہر بارہ بجے سے ایک دوسرے پر حملے روک ديں گی۔
انٹرنيشنل کميٹی آف ريڈ کراس فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کرانے میں مدد کرے گی اور فریقین کے مابین قیدیوں کا تبادلہ اور لاشوں کی واپسی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جائے گا۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ماسکو معاہدے کے تحت فائر بندی کس حد تک مؤثر ہو گی، کیوں کہ اس پر عمل درآمد شروع ہوتے ہی فریقین نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ نے بتایا کہ دونوں فریق بامعنی امن مذاکرات شروع کرنے پر بھی متفق ہیں تاہم موجودہ سیز فائر کی شرائط اور طریقہ کار کی تفصیلات ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ طویل مدتی امن معاہدہ یورپی منسک گروپ (او ایس سی ای) کی نگرانی میں ہونے والے مذاکرات میں طے کیا جائے گا۔
آرمينيا اور آذربائيجان کے درميان نگورنا کاراباخ ميں دو ہفتے تک جاری رہنے والی جھڑپوں ميں سينکڑوں افراد ہلاک ہوگئے اور بڑی علاقائی قوتوں ترکی اور روس کے بھی اس مسلح تنازعے ميں ملوث ہونے کے خطرات بڑھ گئے تھے۔
ماسکو میں سیز فائر پر رضا مندی کے بعد آرمینیا کے وزیر خارجہ زوہراب مناتساکانیان اور ان کے آذربائیجانی ہم منصب جیحون بہراموف نے میڈیا سے گفتگو نہیں کی۔ تاہم آرمینیا کے سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مناتساکانیان نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو معاہدہ صدر پوٹن کی ذاتی دلچسپی اور ان کے کلیدی کردار کے باعث طے پایا ہے۔
ترکی ہمیشہ آذربائیجان کی حمایت میں کھڑا رہا ہے اور نگورنو کاراباخ میں جاری موجودہ جنگ میں بھی انقرہ نے آذربائیجان کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ترکی نے اب ماسکو معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ اب بھی بہت کچھ طے کرنا باقی ہے۔
ترک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ”انسانی بنیادوں پر سیز فائر اہم ابتدائی قدم ہے لیکن دیرپا حل کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ ترکی آذربائیجان کے منظور کردہ کسی بھی حل میں تعاون کرے گا اور میدان جنگ اور مذاکرات کی میز پر آذربائیجان کی حمایت جاری رکھے گا۔‘‘
ترک وزیر خارجہ نے سیز فائر معاہدے کے حوالے سے اپنے آذربائیجانی ہم منصب سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی کی۔
فریقین کے جنگ بندی کی سنگین خلاف ورزی کے الزامات سیز فائر پر عمل درآمد شروع ہونے کے گھنٹوں بعد بھی فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر سیز فائر کی خلاف ورزی کے الزامات جاری ہیں۔
آذربائیجان نے آرمینیا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی فوجوں نے سیز فائر شروع ہونے کے بعد بھی کئی گنجان آباد علاقوں پر حملے کیے ہیں۔ اس کے جواب میں آرمینیا نے بھی آذربائیجان کی افواج پر ایسے ہی الزامات عائد کیے ہیں۔
دونوں ممالک نے ان الزامات کے ساتھ ساتھ حملوں کی فوٹیج بھی جاری کی ہے۔
دوسری جانب متنازعہ علاقے اور خود ساختہ نگورنو کارباخ ریپبلک کے سربراہ نے سیز فائر معاہدے کے بعد اپنی پہلے سے اعلان کردہ پریس کانفرنس ملتوی کر دی ہے۔