کراچی (جیوڈیسک) آئی جی سندھ کی تعیناتی کا معاملہ اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، سندھ پولیس کے لیے اسلحے کی خریداری پر صوبائی حکومت اور آئی جی میں اختلافات پیدا ہوئے۔
جس کے بعد آئی جی اقبال محمود کو سندھ بدر کر دیا گیا، نئے آئی جی کی تعیناتی پر وفاق اور سندھ حکومت میں ٹھن گئی ہے، اسی ڈیڈ لاک کے باعث نئے آئی جی کا فیصلہ نہ ہو سکا اور فی الحال سندھ پولیس کا کوئی والی وارث نہیں۔
سندھ پولیس کے لیے اربوں روپے کی لاگت سے ہتھیاروں کی خریداری پر سندھ کے حکمرانوں اور آئی جی پولیس کے درمیان پیدا ہونے والا تنازع اب تک ختم نہیں ہو سکا ہے۔
پہلے اس کا شکار سابق چیف سیکریٹری اعجاز چودھری بنے۔ پھر ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ ممتاز شاہ اس کی نظر ہوئے۔ اور اب باری ہے سندھ پولیس کے سربراہ اقبال محمود کی۔
ذرائع کہتے ہیں کہ ایک اعلیٰ شخصیت کے دوست کی خواہش پر سندھ پولیس کے سربراہ پر سربیا سے انتہائی مہنگی قیمت پر بکتر بند گاڑیاں خریدنے کے لیے دبائو ڈالا گیا۔ بات نہ ماننے پر سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اقبال محمود کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے اور اپنی پسند کے افسر فیاض لغاری کو نیا آئی جی بنانے کے لیے خط لکھ دیا۔
وفاق نے جواب میں قانون کے مطابق مرزا خان بیگ، رفیق حسن اور میر زبیر محمود کے ناموں کا پینل بھجوا دیا جسے سندھ حکومت نے مسترد کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چھ ماہ کے دوران یہ دوسری بار ہے۔
کہ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان آئی جی سندھ کی تعیناتی کے معاملے پر صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اس صورتحال میں سندھ پولیس کے سربراہ غیر فعال ہو گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ اقبال محمود چار دن سے دفتر نہیں آئے۔
ذرائع کے مطابق سندھ پولیس میں گریڈ 21 کے ایڈیشنل آئی جیز کی 8 آسامیوں میں سے پانچ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اس وقت سندھ پولیس کا کوئی والی وارث نہیں۔ حکمرانوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر آئی جی پولیس اقبال محمود گھر بیٹھ گئے ہیں اور سندھ حکومت اپنی پسند کے علاوہ کسی کو نیا آئی جی قبول کرنے کو تیار نہیں۔