کراچی (جیوڈیسک) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے کسٹم اور کوسٹ گارڈز کی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب مری ہوئی روحیں ہیں کوئی کام نہیں کرنا چاہتیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی اور اے این ایف کی کارکردگی بھی بہتر نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آتش فشاں پر کھڑے ہیں۔
تمام ایجنسیاں اور ادارے مل جائیں تو کراچی میں ایک بھی گولی نہیں لائی جا سکتی۔ چیف جسٹس نے میری ٹائم سیکورٹی افسر سے استفسار کیا کہ کیا آپ کا کام صرف بھارتی ماہی گیروں کو پکڑنا ہے؟۔ کوسٹ گارڈ اور میری ٹائم سیکورٹی کے ہوتے اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ سمجھ سے بالاتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی منصوبے کے تحت سمگلنگ ہو رہی ہے۔ کسٹم، کوسٹ گارڈ اور پولیس اس دھندے میں ملی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ان فسران کے ساتھ میٹنگ کریں۔ کراچی میں ایک بھی گولی نہیں ملنی چاہیے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی اے این ایف پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں منشیات کا کاروبار ہو رہا ہے۔
دبا پولیس اور رینجرز پر ڈال دیا جاتا ہے۔ آپ کیا کر رہے ہیں۔ ڈی جی این ایف اے نے اعتراف کیا کہ کراچی میں منشیات کا کاروبار ہوتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ قانون آپ کا ہے پڑھ کر ہم سنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمانڈر صاحب لگتا ہے کہ آپ نے اپنا قانون نہیں دیکھا۔