تحریر: ۔حافظ شاہد پرویز آرمی چیف کی جانب سے کومبنگ آپریشن کے فوراََ بعد پاکستان میں سیاسی کاروباری اور سرکاری سطح پر بڑے خوف کی فضا پیدا ہو چکی ہے آرمی چیف کی جانب سے ملک میں دہشتگردی کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمہ کیلئے بڑے پلیٹ فارم پر آپریشن کاباقاعدہ آغاز اپنے ادارے پاک فوج کے اندر سے ہی شروع کیا گیا جس میں گزشتہ روز بارہ فوجی افسران کو معطل کرکے گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ مزید دو سو افسران اور اہلکاروں کے خلاف انکوائری جاری ہے۔ اپنے گھر سے احتساب کا عمل شروع ہوتا دیکھ کر کرپٹ اور کریمنل عناصر کے اندر کھبلی مچ گئی اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہوچکا ہے۔ اگر شفاف اور مثبت انداز میں کرپشن کے حوالہ سے تحقیقات کرائی جائیں اور معاشرتی نظام کو دیکھا جائے تو پاکستان کے نوے فیصد لوگ اپنی بساطت کے مطابق کرپشن کرتے دیکھائی دینگے۔ معاشرے کو سو فیصد کرپشن سے پاک کرنا تو فوری طور پر شاید ممکن نہ ہو لیکن اس نظریے اور سوچ کو اگر تجربات کی بنیاد سے دیکھا جائے تو جس معاشرے میں ایک چور کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں یا ایک قاتل کو حقیقت میں سزا ملے تو قتل کرنے والے دس سے زائد لوگ اس عمل سے گریز ضرور کرتے ہیں۔ معاشرتی نظام میں کرپٹ اور شدت پسند عناصر کو سیاست کے استعمال کیلئے بھی رکھا گیا۔
اور ذاتی دشمنیوں کے خلاف بھی استعمال کیا گیا۔ اور اشتہاری ڈکیت اور دیگر ایسی طاقتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کے بعد ایسے عوامل کا تیزی سے پھیلاو ہوتا گیا اور معاشرہ کرائمز اور کرپشن کی دلدل میں اس طرح پھنس گیا کہ نوے فیصد لوگوں کو نے خود کو رضا مندی سے رشوت دینے یا وڈیرہ ازم کے سامنے سرجکانے پر تیار کیا۔اور وہ سلسلہ نسلوں کے اندر بستا گیا۔ اور آج شائد ایمانداری دیانتداری انسانیت کی توقیر اور عزت کا عمل پاکستانی معاشرے سے ختم ہونے کے نزدیک ترین پہنچ چکا ہے تو ایسے حالات میں اپنے اختیارات کا درست استعمال کرنے والے آرمی چیف کی جانب سے ایسا قدم خراج تحسین کا باعث ہے کہ جنہوں نے غریب متوسط طبقے کو تحفظ دینے اور ان کی عزت کو بلند کرنے کیلئے ایسے احتسابی عمل کا آغاز کیا کہ جس کے نرغے میں آکر ظالم کرائم پیشہ عناصر جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہونگے اور ان کو پاکستان کی کوئی بھی طاقت بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اور باقاعدہ طور پر کرپشن کی تحقیق کے ساتھ ساتھ قوم کے ذہنوں سے بددیانتی کے عنصر کو ختم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر میڈیا کمپین اور آگاہی مہم چلانے کا سلسلہ بھی جاری ہونا چاہیے۔ تاکہ عوام ایسے عناصر کا اپنی مدد آپ کے تحت جرات اور ہمت پیدا کرسکے۔
Corruption
گاڑی کے ڈرائیور کی کرپشن کی داستانیں سنی اور دیکھی جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے طبقے کا ایک عام ملازم ماہانہ ہزاروں روپے اس کرپشن کی نظر کررہا ہے۔کلاس فور کے نزدیک کے درجے پر تعینات پٹواری بڑے بڑے میرج ہالوں کوٹھیوں اور گاڑیوں کے مالک بنے قوم کے مسیحا ڈاکٹرز عالی شان محلات اور بلڈنگز خریدنے میں کامیاب کیسے ہوئے۔سرکاری افسران چند دنوں میں لینڈ کروزرز گاڑیاں خرید کر اپنے آباو اجداد کو مہیا کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے تو ہر طرف کرپشن ہی کرپشن کا سلسلہ نظر آئے گا۔ سرکاری محکمہ جات کے اندر آڈٹ کی ڈیوٹی پر تعینات افسران ان سے بڑھ کر کرپشن کے حصہ دار بنتے ہیں جبکہ آڈٹ افسران کا دفاتر میں داخل ہوتے ہی پہلا لفظ اپنے موبائل میں بیلنس کروانے کا ہوتا ہے جو کہ اس کے اگلے ایک دن کے عمل کی نشاندہی اور کرپشن میں کی گئی بولی کو ظاہر کرتا ہے۔
جبکہ سرکاری سطح پر اٹھائے گئے اقدامات میں کرپٹ افسران اپنے چھوٹے درجے کے ملازمین سے روزانہ ہزاروں روپے کا بھتہ وصول کرتے ہیں جو کہ غریب افراد کے خون پسینے سے نکالا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی چھوٹی سی ریاست کے اندر روزانہ بارہ ارب روپے کی کرپشن کی جاتی ہے اور اگر پاکستان کے ایک کی کرپشن کی رقم ضلع منڈی بہاوالدین میں خرچ کردی جائے تو کوئی بھی گلی یا نالی یا رستے کھنڈرات کی شکل اختیار نہ کریں۔تاہم احتسابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والے افراد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور اس بات کیلئے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آرمی چیف اوردیگر بڑی طاقتوں کو احتسابی عمل جاری رکنے اور مکمل کرنے کی جرات عطا فرمائے آمین۔