تحریر: محمد اشفاق راجا پاک فوج کی کامیابیاں دیکھ کر سینیٹر جان مکین کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ امریکی کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں امریکی کانگریس کے 4 رکنی وفد کو چند روز قبل شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر میران شاہ کا دورہ کرایا گیا۔ وفد نے دہشت گردوں سے خالی کرائے گئے علاقے دیکھے۔اْنہیں ان کے تباہ کئے گئے انفراسٹرکچر اور خفیہ ٹھکانوں کا معائنہ بھی کرایا گیا۔ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی کامیابیاں دیکھ کر وفد کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ جبکہ سینیٹر جان مکین کا کہنا تھا کہ پاکستان سے مثبت پیغام لے کر جا رہے ہیں۔ بعدازاں وفد نے دفتر خارجہ میں مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کی۔
ملاقات میں ایف سولہ طیاروں کی فراہمی’ افغانستان کی صورت حال اور پاک افغان سرحدی انتظام پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وفد کو بتایا گیا کہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بارڈر مینجمنٹ ضروری ہے۔ وفد کو یہ بھی بتایا گیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ضروری ہیں’ جبکہ نوشکی حملے سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی خوفناک جنگ لڑی’ پاک فوج کو جن لوگوں سے واسطہ پڑا وہ انتہائی جنونی اور اپنے مشن میں بڑے کٹر ہیں۔ اْن کے لیے جان دینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس کے علاوہ اْنہیں سہولت کاروں کا تعاون بھی حاصل تھا’ جو اْنہیں پیسہ’ اسلحہ اور ٹھکانے فراہم کرتے تھے۔ پھر اْن کے لیے افغانستان کے دروازے بھی کْھلے تھے’ جب بھی اْنہیں خطرہ ہوتا وہ سرحد پار کر کے افغانستان چلے جاتے۔
Terrorism
دشوار گزار علاقوں اور پہاڑوں اور ندی نالوں سے اٹے علاقے میں لڑی جانے والی اس جنگ کو پاک فوج نے بڑی کامیابی سے لڑا۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو امریکہ نے افغانستان’ ویت نام اور کمپوچیا میں خود لڑ کر دیکھی’ امریکہ بھرپور قوت استعمال کر کے بھی یہ جنگیں نہیں جیت سکا۔ بالآخر مذاکرات اور مصالحت کر کے جان چھڑانا پڑی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی بہادر افواج نے دہشت گردوں کا جس طرح صفایا کیا’ اْس کی مثال نہیں ملتی۔ بیشتر علاقے دہشت گردوں سے پاک کرا لیے گئے ہیں۔ اب بچے کھچے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر کچھ تاخیر ہو رہی ہے یا مشکل پیش آ رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر آمدورفت کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ایسا نظام نہیں’ جو سرحدوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ ماہ طورخم پر گیٹ نصب کرنے کی کوشش کی تو افغانستان نے تقاضوں کو سمجھے بغیر فائرنگ کر کے پاک فوج کے ایک میجر کو شہید اور کئی جوانوں کو زخمی کر دیا۔
حالانکہ یہ تعمیر کوئی انوکھی نہیں تھی اور دوسرا خود افغانستان کے فائدے میں بھی تھی۔ بہرحال اب جبکہ امریکی وفد نے خود اپنی آنکھوں سے پاک فوج کی کارگزاری دیکھ لی ہے تو توقع کی جاتی ہے کہ واپس جا کر امریکی حکام کو بتائیں گے کہ پاکستان کے لیے ایف سولہ طیارے کیوں ضروری ہیں اور یہ کہ بارڈر مینجمنٹ کا اصل قضیہ کیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کا موقف کیوں صحیح ہے اور یہ کہ ڈو مور کے مطالبے کیوں بلاجواز ہیں۔ اور یہ بھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں بھارتی پروپیگنڈہ کس قدر بے بنیاد ہے اور یہ کہ یہ بھی غلط ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی نہیں ہو رہی۔ توقع ہے کہ اس دورے سے امریکی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک امریکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بھارت اور افغانستان کی نظروں سے دیکھتا آ رہا ہے ورنہ یہ جنگ جس انداز میں لڑی گئی اور لڑی جا رہی ہے وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے اختتام پر ہے تاہم اس کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے حالات معمول پر آئیں۔ سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ بند کرائی جائے۔
Afghan Refugees
افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے امن لایا جائے تاکہ مہاجرین واپس جا سکیں پاکستان گزشتہ تیس پینتیس سال سے 30 سے 35 لاکھ مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ مہاجرین کی واپسی’ افغانستان میں امن سے مربوط ہے۔ امریکہ کو کابل انتظامیہ پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے’ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے۔تمام سٹیک ہولڈرز کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔ سلامتی اور تحفظ افغان شہریوں کا بھی حق ہے جو پچھلے ساڑھے تین عشروں سے امن کو ترس گئے ہیں۔
نوشکی ڈرون حملے نے جس میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا اختر منصور ہلاک ہو گئے تھے’ امن عمل کو سخت نقصان پہنچایا۔آئندہ ایسی کارروائیوں سے گریز کیا جائے۔ امریکہ نے افغانستان میں ایک عشرہ سے زائد طاقت استعمال کر کے دیکھ لیا اب اس پالیسی کو جاری رکھنے سے اجتناب کرنا ہو گا۔ پاکستان کا امن’ افغانستان کے امن سے مربوط ہے اور یہ امن جنگ سے نہیں مذاکرات سے ہی آئے گا۔