تاریخ بھری پڑی ھے کہ جماعت اسلامی نے فوج کا ساتھ دیا۔ پھر اچانک ایسا کیا ھوا کہ بیت اللہ محسود کی ھلاکت کے فوری بعد جماعت اسلامی کو اپنا موقف بدلنا پڑا۔ فوج کے ماتھے پر چڑہی تیوریاں دیکھنے کے باوجود جماعت اسلامی اپنے بیان پر ھے مگر تنھا تمام سیاسی کھلاڑی الگ نالاں ھیں۔
آرمی یا سویلین دونوں میں سے کوئی بھی فرشتہ نھیں۔ دونوں سے بے تحاشا غلطیاں ھوئیں۔ فوج نے اینٹی اسٹبلشمنٹ اور سکولر عناصر کو کبھی سر اُٹھانے کی اجازت نہ دی۔ پاچا خان عبدالغفار خان، جی ایم سید ولی خان، مینگل، اور دور حاضر کے بعض جمھوری حکمرانوں کو جیلوں کی دھول چھٹوائی اور غدار وطن قرار دیا۔ آمریت کا بیج بویا جو تنا آور درخت بن گیا، اُسی دلکھتی چھاؤں تلے نوزائیدہ ملک نے ھوش سمبھالا۔ جھموریت جب کھبی پنپیے لگی اس پر شب خون مار کر بساط لپٹ دی گئی مجاھدوں اور طالبانو کو کھبی تھپکی کی دے کر افغانستان اور کشمیر میں لڑوایا اور کھبی امریکہ کی خواہش پر قربانی کی پھینٹ چڑھایا گیا۔
اسٹیبلشمٹ کی ڈبل گیم کا راز فاش ھونے پر جُھنجھائے ھوئے عناصر نے اہنی بندوقوں کا رُخ آرمی کی طرف موڑ دیا اور دشمن کے دوست کو اپنا دشمن کر دیا۔ پاکستانی فوج امریکی یاری کی قیمت نا جانے کب تک اور کس مشکل میں ادا کر پائے گی۔ جماعت اسلامی کے امیدوار سید منور حسن وہ بیان جو فوج کو ناراز اور طالبان کو خوش کر گیا طالبان کے ھاتھوں مارے جانے والے پاکستانی فوجیوں کو شھید قرار نھیں دیا جا سکتا جبکہ امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے طالبان سربراہ حکیم اللہ محسود شھید ھیں۔ اس بیان کی تشریح یوں سمجھا گئی کہ منورحیسن مانتے ھیں کہ آٹھ ھزار سیکورٹی اھلکار سرکار کے تنخواہ دار ملازم تھے، دوران ڈیوٹی وہ اپنی جانوں سے ھاتھ دھو بیٹھے، اس سے زیادہ مرنے والے کی کوئی حثیت اور مقام نھیں۔
Maulana Fazlur Rehman
یھاں سوال اُٹھتا ھے کہ افغانستان روس کی لڑائی میں جانوں کا نزرانہ پیش کرنے والے شھید ھوں گے یا نھیں خلا فت راشدہ میں مسلمان گروھوں میں جان دینے والوں میں کون لوگ شھید قرار پائیں گے۔ یزید کی سلطنت میں بھی نمازیں پڑی جاتی تھیں، اذانیں ھوتی تھی یزید کے لشکر بھی مسلمان تھے جبکہ دوسری جانب امام عالی مقام اور ان کا پاک گھر نہ تھا۔ میدان کربلا میں دنیا سے رخصت ھونے والوں میں یزیدی لشکر سے بھی شھید مل سکیں گے یا نھیں۔ مولانا فضل الرحمن نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکی حملے میں مرنے والے کتے کو بھی شھید کا لقب عطا کر دیا۔
جماعت اسلامی کو جنرل ضیاء کی حد تک جنرل پرویز مشرف کی اسٹیبلشمنٹ سے بے پناہ طاقت ملی۔ ایواں میں 5 سے 8 سٹیوں تک ان کی نمائندگی رھی لیکن سٹریٹ پاور کی قوت ھمیشہ ان کے ھاتھ رھی یہ حکومت میں انکا اسرور سوخ قائم رھا۔ جماعت اسلامی کی دو خصوصات بڑی نمایاں ھیں۔ یہ انتھائی جمھوری لوگ ھیں اور ان پر کرپشن کا کوئی الزام نھیں آج کل کی میڈیا انکہ اسیکولر اور لبرل فاشسٹ دین کو سیاست سے الگ کر کے پیش کرنے کی دُھن میں علماء کو بے رحمانہ انداز میں ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دین اور سیاست لازم و مظلوم ہیں جماعت اسلامی اس مجموعہ کی بہترین مثال ہے۔ تاہم سیاست میں مذہب کو ناجائز طور پر استعمال کرنا غلط ہے۔
بدقسمتی سے قیام پاکستان کے آغاز سے ہی مذہبی پیشواؤں، علماء اور مولویوں نے مذہب کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر کے عوام کو گمراہ کیا۔ سید منور حسن نے غالباً جس بنیاد پر حکم اللہ محسود کو شہید کہا اس کی دو مثالیں پیش کی جا سکتیں ہیں۔ ہلاکت سے تقریباً بی بی سی کے نمائندے کو اپنے آخری باقاعدہ انٹرویو میں انہوں نے کہا ہم لوگ پاکستان کے اندر دھماکوں میں ملوث نہیں اور نہ ہم کبھی ایسے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے ہمارا مقصد شریعت کا نفاذ ہے۔
اگر امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے تو ہم پُرامن ہو جائیں گے۔ دوسری مثال حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد شوشل میڈیا چلنے والی ان کی ایک پرانی ویڈیو کی ہے جس میں وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں ہم پاکستان کے بچے ہیں۔
ہماری جنگ امریکہ سے ہے پاکستان فوج امریکہ سے الگ ہو جائے۔ ہم صرف امریکی اہداف پر کاروائیاں کرتے ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال قارئین کے سامنے رکھنا مقصود ہے کیا منور حسن کا بیان آزادی رائے کے زمرے میں آتا ہے ؟ ملالہ کی متنازعہ کتاب کو آزادی رائے کی بہترین مثال قرار دینے والے روشن خیال لوگ ایک مولوی کے بیان کو تجزیہ و تشریح کے قابل سمجھنے کی تکلیف گوارا کریں گے ؟ گو آئین پاکستان میں آزادی رائے پر کچھ قوانین موجود ہیں یعنی آرٹیکل 63 کے تحت ریاست، سرحدوں کی سالمیت خود مختاری، فوج اور عدالتوں کی توہین نہیں کی جا سکتی تاہم آرٹیکل 17 کے تحت (FREEDOM OF Association) یعنی رابطہ اور سیاسی پلیٹ فارم بنانے اور بات کرنے کا حق موجود ہے۔
تحریک طالبان کے نئے سربرا مولوی فضل اللہ جن کا محسود قبیلے یا وزیرستان سے کوئی تعلق نہیں نہ صرف پاکستان سیے مذاکرات سے انکار کیا ہے بلکہ انکے کمان سنبھالتے ہی پاکستان کے ہمدرد گروپ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیر الدین حقانی کو اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا ہے گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تقسیم کے واضع ہوتے ہوئے ایک گڈ طالبان کا قتل ایک پیغام ہے کہ پاکستان کو اچھے اندرونی دوستوں سے تنہا کرنے کی کاروائیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔
ملک کے نازک حالات میں عوام اور ادارون کا فوج سے ملکر چلنا اور اپنی جماعت کا یقین دلانا وقت کی ضرورت ہے ریاست کو بچانا ہے تو فوج کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے کیونکہ فوج ہی ملک دشمن عناصر اور عوام کے درمیان سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ وہ درحقیت کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ ورنہ اُنکا فوج کیخلاف بیان اس تناظر میں لیا جائے گا کہ جماعت اسلامی پاکستان آرمی کو مشکل وقت میں چھوڑ کر طالبان کے بھاری پلڑے میں جا بیٹھی ہے۔