ایک طرف وزیر اعظم میاں نواز شریف ملک کے سب سے بڑے منعظم ادارے اور ملک کی سرحدوں کی پاسبان پاکستانی فوج کے سربراہ کی تقرری کر رہے تھے تو دوسری طرف میاں نواز شریف کو یہ طاقت اور رتبہ دینے والا ایک ووٹر آج زندگی کے ہر میدان میں ذلیل و رسوا ہو رہا ہے ہر سرکاری ادارے کو چنڈو خانہ بنا دیا گیا ہے اور ہر سرکاری ملازم اپنے آپ کو اس ملک کا جاگیردار سمجھنا شروع ہو چکا ہے اور تو اور جس کے ووٹ سے آج ایوان اقتدار میں رونقیں ہیں۔
وہی آج سرکاری ہسپتال میں اپنا علاج کروانے کے لیے ایک روپے کی پرچی حاصل کرنے کے لیے گھنٹوں ذلیل ورسواء ہورہا ہے بڑی تگ و دو کے بعد جب وہ یہ مرحلہ عبور کرکے ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے تو وہ بھی میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنانے والے اس ووٹر کی پرچی پر چند ٹیسٹ اور کچھ ادویات لکھ کر اس سے جان چھڑوا لیتا ہے بعد میں جب وہی ووٹر ٹیسٹ کے لیے اپنے جیسے ہی کسی ووٹر اور ہسپتال کے ملازم کے پاس پہنچتا ہے تو وہ اسے ٹیسٹ کے لیے ایک لمبی تاریخ دے دیتا ہے خواہ اس وقت تک مریض اپنی بنائی ہوئی اس حکومت کے مزید کارنامے دیکھنے کے قابل بھی نہ رہے ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اپنے ووٹ کی اہمیت اور اسکی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہوسکا اور اسی لیے اس کا استعمال بھی ہم ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر کرتے ہیںہم میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جو ووٹ توبڑے شوق سے ڈالتے ہیں مگر انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جس شخص یا پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں انکا منشور کیا ہے اس امیدوار کا بیک گرائونڈ کیا ہے اور اسکی ملک کے لیے خدمات کیا ہیں ان سب باتوں سے لاپرواہ ہو کر ہم صرف اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے افراد کو ووٹ دے آتے ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کو بھی گروی رکھ دیتا ہے۔
Votes
رہی ملک کی بات وہ تو ایسے افراد کے لیے نہ تھا اور نہ ہی ہے کیونکہ ان سیاستدانوں کے بچے بیرون ملک، ان سیاسی خاندانوں کی جائیدادیں بیرون ملک اور ایک عام آدمی کے ووٹ سے حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں کے کاروبار بھی بیرون ملک ہوتے ہیں جب یہی افراد باہر جاتے ہیں تو بغیر پروٹوکول کے گھومتے ہیں اور ہاں پر انہیں کوئی منہ نہیں لگاتا مگر جب پاکستان میں ہوں تو سینکڑوں سیکیورٹی والوں کے حصار میں چلے جاتے ہیں ملک کی تقدیر بدلنے کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے موقعہ ملتے ہی ملک کی تقدیر سے کھیلنا شروع کردیتے ہیں اور پھر انہی لوگوں کو پرموٹ کیا جاتاہے جو لوٹ مار میں اپنا ثانی نہ رکھتے ہوں آج پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی اچھی خوراک، اچھی دوائی اور معمولی سی رہائش کو ترس رہی ہے کہیں سے کوئی امیدکی کرن نظر آئے تو ایک دوسرے کو ہی دھکے مار مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں ابھی نیشنل بنک نے نوجوانوں کے لیے قرضے شروع نہیں کیے تھے کہ لمبی لائینیں پہلے ہی لگنا شروع ہو گئی تھی۔
کرپشن اور چور بازاری اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ایک جائز کام ولا بھی سمجھتا ہے کہ جب تک وہ کسی کو رشوت نہ دیدے اس وقت تک اسے بیٹھنے کو بھی نہیں کہا جائیگا پہلے کوئی دور تھا کہ اگر پورے محکمے میں کوئی راشی اور کام چور قسم کا افسر ہوتا تو ہر کوئی اسے برا سمجھتا مگر اب اس کے الٹ ہوچکا ہے اب پورے محکمے میں اگر کوئی ایماندار اور سچا افسر کام کر رہا ہے تو ہرطرف سے اسے شدید تنقید کاسامنا کرنا پڑتا ہے اور اسکو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے طرح طرح کی باتیں اسکے متعلق پھیلائی جاتی ہیں ان سب خرابیوں کو پروان چڑھانے والے اور عوام کو فقیروں کی صف میں شامل کرنے والے صرف اور صرف ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر جائز اور ناجائز طریقہ استعمال کیا اور اسکے لیے عوام کو صرف ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کیا بعدمیں ٹشو کی طرح پھینک دیاآج اگر ملک میں غربت اور جرائم کی شرع بڑھ گئی ہے تو اس گناہ میں اگر ایک عام ووٹر کا حصہ بنتا ہے تو سب سے بڑا حصہ ہمارے سیاستدانوں کی جھولی میںبھی جاتا ہے جنہوں نے عوام کو دلفریب نعروں کے جال میں الجھا دیا تھا۔
قیام پاکستان کے وقت امن ،خوشحالی اور انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک نسل ختم ہو چکی ہے ،امید کی کرن لیے دوسری نسل ختم ہونے کو ہے اور اب رہ گئی وہ نسل جس نے نہ قربانی دی اور نہ قربانیاں دینے والوں کو دیکھا صرف کتابیوں میں لکھی ہوئی باتیں ہیں جو اس وقت تک یاد رہتی ہیں جب تک اسکے امتحانات نہیں ہوجاتے اسکے بعد پھر کتابی باتوں کتابوں تک ہی رہ جاتی ہیں اور عملی زندگی کا آغاز اس جگہ سے ہوتا ہے جہاں سے لوٹ مار کا سلسلہ ختم ہوا تھا۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو ذاتی پسند وناپسند سے الگ کرکے بلدیاتی الیکشن میں ایسے نمائندوں کو ووٹ دیں جو آپ کے دکھ سکھ میں شریک ہوں نہ کہ کونسلر بن کر وہ بھی اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیں۔