تحریر : روہیل اکبر پشاور میں بچوں کو شہید کیے جانے کے بعد پاکستان آرمی کے کمانڈر جنرل راحیل شریف ہی وہ واحد فرد ثابت ہوئے جنہوں نے فوری طور پر عملی کام شروع کردیا ورنہ تو ہمارے سب سیاسی بونے مذمت کی حد تک ہی رہے جبکہ بعض حکومت میں بیٹھے ہوئے اہم عہدوں پر وزیر جن کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ خود میدان میں نکلتے اور اپنے پاکستانیوں کو بتاتے کہ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے دفتروں اور مجبوریوں کو چھوڑ کر عوام کی خاطر میدان میں نکل آئے ہیں اور دنیا کو بتاتے کہ ہمارے ساتھ یہ جو ظلم ہورہا ہے اس کے پیچھے کون ہے کہاں سے دہشت گرد آرہے ہیں اور پھر پاکستان میں ان کو کس کس کی پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اپنی زبانیں بند کرلی اور وہی پرانے گھسے پٹے جملوں کے ساتھ پردہ سکرین پر آئے کی ان دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔
یہ وہی جملے ہیں جو پچھلے بیس سالوں سے ہم سنتے آئے ہیں کیونکہ کبھی ان حکمرانوں کے بچے کسی دہشت گردی میں آکر نہیں مرے اس لیے انہیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ جب ایک معصوم بچہ بیمار ہوتا ہے تو اسکی تکلیف بھی ماں باپ سے برداشت نہیں ہوتی جہاں انکے پورے جسم کو گولیوں سے چھلنی کردیا جائے وہاں ماں باپ کے دکھ کا اندازہ لگانا کونسا مشکل کام ہے اور اسی دکھ کو محسوس کرتے ہوئے آرمی چیف راحیل شریف نے فوری طور پر افغانستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی جنرل راحیل شریف کی افغان صدر سے ملاقات کے بعد پاکستان میں فوری طور پر پاک فوج نے ان دہشت گرد وں کے خلاف جاری آپریشن کو مزید تیز کردیا اور چند دنوں میں سینکڑوں دہشت گرد مارے گئے جبکہ پاک فوج کے دباؤ میں ہی آکر حکومت نے روکی گئی۔
پھانسیوں کی سزاؤں پر عمل بھی فوری طور پر شروع کردیا اور اب پاکستان کے عدالتی نظام میں جان بوجھ کر پیدا کی گئی خرابیوں کے باعث ان دہشت گردوں کے کیسوں کی سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یقیناًایک اچھا اقدام ہے کیونکہ ہمارے عدالتی نظام میں جان بوجھ کر جوبے پناہ خرابیاں پیدا کردی گئی ہیں اسے ٹھیک کرنے کے لیے بھی ایک لمبا عرصہ درکار ہے ایک کیس کے فیصلے کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور پھر سول کورٹ سے شروع ہونے والے مقدمات جب سپریم کورٹ تک پہنچتے ہیں تو اس وقت دادے سے شروع ہونے والے مقدمات پوتے کی جوانی تک جوں کے توں رہتے ہیں ایک ایک عدالت میں سینکڑوں کیس سماعت کے منتظر ہوتے ہیں مگر وقت کی کمی کے باعث تاریخ پر تاریخ ڈال دی جاتی ہے فوجی عدالتوں کو نہ صرف دہشت گردی کے کیسوں تک محدود رکھا جائے۔
Supreme Court
بلکہ ان عدالتوں کو ایسے کیس بھی فراہم کیے جائیں جنہوں نے لوٹ مار کے زریعے ملک کی جڑیں کمزور کی اور انکے کیس عرصہ دراز سے نیب یا پھر مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں کرپشن اور لوٹ مار کے سینکڑوں کیسوں کی فائلوں کواب ایسے دیمک کھا رہی جیسے سیاستدانوں نے ملک کو دیمک کی طرح کھایا ہے اور یہ نظام اس وقت تک یونہی چلتا رہے گا جب تک پاکستان کے آئین پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوجاتا کیونکہ پاکستان کا آئین اس وقت کسی الماری میں بند پڑا ہواہے اگر عمل کیا جائے تو سب کو حقوق مل جائیں مگر ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں،بیوروکریٹس اور لٹیروں نے آئین کو اپنی مرضی کی کتاب سمجھ کر ہمیشہ اسے استعمال کیا کبھی اسے نظریہ ضرورت کا نام دیدیا گیا تو کبھی اس کتاب کو اپنی ضرورت کی نظر کردیا گیا۔
رہی بات ہمارے عدالتی نظام کی اس وقت نہ ہی ہماری جوڈیشری ناکام یا نااہل ہے بلکہ اسے چلنے ہی نہیں دیا جاتا ہے ایک کیس کو 100 سال یا پھر عمر ہی تمام ہوجاتی ہے قوم اب بے رحم احتساب کی توقع کررہی ہے وہ بھی فوج سے اگراب بھی ایسا نہ ہوا تو یہ قوم پاک آرمی سے وابستہ امیدیں توڑدے گی رہی بات بنیادی حقوق اور قانون کی وہ آج تک پاکستان میں کسی غریب کو نہیں ملے بلکہ آج تک سلب ہی ہوتے آئے ہیں اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو آج غریب ،محنتی اور ایماندار پاکستانی یوں دربدر کی ٹھوکریں نہ کھاتے مشرق کی بیٹی کی عزت نہ لٹتی یورپ میں فوزیہ صدیقی یوں اپنا ذہنی توازن نہ کھوتی مائیں اپنے بچوں کی پرورش کی خاطر اپنا جسم نہ بیچیں بیٹیاں حالات سے تنگ آکر اپنی عزت کو بازار میں نہ رکھتی،علاج کے لیے باپ اپنا گردہ نہ بیچتا،بھائی بے روزگاری کے تعنوں سے تنگ آکر اسلحہ نہ اٹھاتا کیا ان سب وجوہات کے پیچھے حکومت کا ناکام ہونا ہے نہیں حکومت ناکام نہیں ہوئی بلکہ ہمارے غیرت والے لیڈر مرگئے جن کی سانسیں عوام ہوا کرتی تھیں۔
اب تو بس لیڈر طوائف کے کوٹھے پہ نظر آتے ہیں نالائق لیڈر نالائق حکومت کی نالائقانہ پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے فوج کو آنا پڑا ہے فو ج کو اب بے دریغ احتساب کرنا چاہیے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف بلکہ ہر اس فرد کے خلاف ایکشن لینا چاہیے جس نے ملک کو نقصان پہنچایا ہو بے شک اس میں سابق فوجی ہو ں سیاستدان ، بیوروکریٹ یا صحافی ہوں سب چوروں کو سربازار الٹا لٹکاکرلوٹی گئی دولت کا ایک ایک پیسہ واپس لیا جائے تاکہ ہم اس پاکستان میں واپس جا سکیں جسکے لیے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دی جسکا تصور علامہ اقبال نے پیش کیا تھا اور جسکی قیام کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے دن رات ایک کردیا تھا۔