اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج تعینات کرنے کے فیصلے نے حکومت مخالف سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ وفاقی حکومت نے امن و امان قائم رکھنے کیلئے فوج تعینات کرنے کا غیر معمولی فیصلہ کیا ہے جس کا حکومت کا اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑیگا۔
ماضی میں بھی نواز شریف کراچی میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو اختیارات دے چکے ہیں۔ آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی حکومت کی ہدایت پر مسلح افواج کسی غیر ملکی جارحیت یا جنگ کی دھمکی پر پاکستان کا لازمی دفاع کریں گی اور جب بھی طلب کی جائیں گی سول انتظامیہ کی مدد کریں گی۔
وفاقی حکومت کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 245 کی شق کے تحت جاریکردہ ہدایات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ اس آرٹیکل کے تحت جس جگہ سول انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج تعینات کی جائیگی۔ آرٹیکل 1999 کے تحت ہائیکورٹ اپنے اختیارات استعمال نہیں کرسکے گی۔ آرٹیکل 245 کے نفاذ سے ہائیکورٹ کی کارروائی متاثر نہیں ہو گی جو فوج کے سول انتظامیہ کے مدد کیلئے آنے سے قبل جاری رہے گی۔
اگر آئین کے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے روز یا بعد میں اس بارے میں ہائیکورٹ میں کارروائی معطل رہے گی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کو ایسی اطلاعات ملی ہیں جن کے مطابق 14 اگست 2014ء کو لانگ مارچ کے موقع پر پہلے یا بعد ازاں راولپنڈی اسلام آباد میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہو سکتا ہے جس کے پیش نظر حکومت نے امن و امان کے قیام کیلئے فوج کی مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عسکری قیادت جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کیلئے موجودہ حکومت کی پشت پر کھڑی ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے وفاقی حکومت نے عمران خان کی ’’یلغار‘‘ سے خوفزدہ ہو کر فوج کی مدد طلب کرنے کا انتہائی فیصلہ کیا ہے۔ حکومت عمران کے لانگ مارچ کی وجہ سے پریشان ہو گئی ہے۔