تحریر : انجینئر افتخار چودھری میں تو نونیا نہیں ہوں جو آپ کے بارے میں برا سوچوں اور اپنی ہر غلطی کا ذمہ دار آپ کو ٹھہرائوں۔ میں وہ جاہل بھی نہیں ہوں کے جو انٹر نیشنل میڈیا کو اپنی کرتوتوں کی بجائے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائوں۔جو حرام کھائے اور پکڑا جائے کہ اس کے پیچھے آپ ہیں۔ایسی سوچ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کی بھی نہیں ہے۔ہم تو اپنے پیارے فوجیوں کو ہر میدان میں فاتح دیکھنا چاہتے ہیں۔ہم نے آپ کو دیا ہی کیا ہے جو آپ سے مانگیں لیکن جناب جنرل باجوہ صاحب یہ بات اچھی نہیں لگی کے دشمن کی گولیاں ختم ہو جائیں گی اور ہمارے جونوں کے سینے نہیں ختم ہوں گے۔کیوں جی کیا ہماری فوج اتنی کمزور ہے کہ دشمن اسے ختم کرتا چلا جائے گا۔نہیں جناب باجوہ ایسا نہیں ہمارے تو وہ فوجی ہیں جنہوں نے یہ سبق پڑھا کہ وہ ہزاروں کے مقابلے میں ٣١٣ بھی ہوں تو دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیتے ہیں۔
اللہ کے فضل سے ہماری فوج نے مغربی محاذ پر بھی لازاوال داستانیں رقم کیں اور مشرقی محاذ پر بھی جی کھول کے لڑے۔ایسا نہیں ہو سکتا ہمارے سینے زندہ رہیں گے اور اللہ کے کرم سے ہم دشمن کی چھاتیوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسی اللہ کے فضل سے اسے نیس و نابود کرنے کے بعد ہماری گولیاں بچیں گی۔ہم نے تو کبھی آپ کو کمزور نہیں سمجھا۔میں ابھی کچھ دیر پہلے ساتھ روز شمالی علاقہ جات میں گزار کے آیا ہوں میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے جوانوں کی کامیابیاں دیکھی ہیں وہ عطا آباد لیک جو قدرتی آفت کے نتیجے میں وجود میں آئیں وہاں کے شہداء کے قصے سنے پیسو میں مشکل ترین چوٹیوں پر پاکستان زندہ باد لکھے ہوئے دیکھا۔جناب جنرل باجوہ صاحب پاکستان کا ایک ایک بچہ آپ کی پشت پر کھڑا آپ کو تھپکی دے رہا ہے کہ قدم بڑھائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں یہ وہ قدم ایک چور لٹیرے کے لئے نہیں ایک محافظ کے لئے نعرہ ہے جس کی دلیری اور بہادری کے قصے مائیں اپنے بچوں کو سلا تے وقت سناتی ہیں۔
لیفٹینیٹ ارسلان راجگال سیکٹر میں سرحد پار آنے والی گولی سے مارا گیا ہے۔بائیس سالہ نوجوان تصویر دیکھیں تو دل کرتا ہے ماتھا چوم لیں۔وہ مادر وطن کے لئے قربان ہو گیا کری روڈ راولپنڈی کا بائیس سالہ جوان جو تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔وہ آج اس دنیا سے اس دنیا میں چلا گیا جہاں حضور پاکۖ اسے باہنوں میں لے کر ماتھا چوم رہے ہوں گے۔وہاں جنت کے دروازوں پر جنت کے سردار اسے خوش آمدید کہہ رہے ہوں گے۔یہ سب کچھ ٹھیک ہے ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔لیکن ایک ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوتی ہے کہ دشمن نے ہماری حدود میں اسے چہید کیا ہے ہے۔یہ بلکل قبول نہیں ہے۔
ان خارجیوں کو اور دشمنوں کو آپ اند گھس کر ماریں۔اس طرح کے واقعات سے قوم کا دل زخمی ہوتا ہے ہم لاشیں کیوں اٹھائیں ؟ہم سینے کیوں پیش کریں؟ان کے سینے کیا فولادی ہیں اور ہمارے ایسے ہی؟اگر ایسی بات ہے تو قوم تو باری باری اپنے بیٹے آپ کو پیش کرتی رہے گی اور ساتھ کہتی رہے کہ پاکستان کے نام پر دل و جاں قربان۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا میجر طفیل شہید،عزیز بھٹی،کیپٹن سرور،لالک جان،کیپٹن کرنل شیر خان فوج نے پیدا کرنے بند کر دئے ہیں؟کیا ہماری فوج تکنیکی طور پر ایک کمزور فوج ہے؟کیا بائیس سالہ نوجوان کو دشمن کے سامنے کھڑا کرنے سے پہلے اسے مناسب تربیت دی گئی تھی؟یہ سوال آج اس کی خوبصورت تصویر کو دیکھ کر میرے ذہن میں اٹھا ہے۔
آپ تکنیکی میدان کے ماہر ہیں اس پر غور کیجئے۔اور ان چالاک حرامخوروں کے مقابل کمانڈوز جیسی سخت ٹریننگ والوں کو آگے بھیجیں۔میں فوجی نہیں رہا مگر میرے پاس میری فیملی میں بے انتہا غازی اور شہیدوں کی لسٹ ہے۔اللہ تعالی جنرل صاحب آپ کو لمبی عمر دے اور اور اس پاک فوج کو ان خارجی بے غیرتوں سے نپٹنے کی صلاحیت دے جنہوں نے اوائل دور اسلام میں خلیفہ ء وقت کو بھی شہید کیا جن کی داڑھیاں ان کے قدموں میں ہوتی ہیں اور شیطان سینے میں۔افغان بارڈر پر آنے والے گولی کا جواب اندر جا کر گھس کر دیا جائے۔کری روڈ راولپنڈی کے فرزند ارسلان کی شہادت پر مجھے فخر ہے کہ وہ میرے علاقے کا رہنے والا ہے مگر مجھے اس دن کا انتظار ہے جب اس کی شہادت کو بدلہ لیا جاتا ہے۔گھس کے مارئیے جنرل صاحب۔