اِک چراغ جو ہم نے سرِ شام کھو دیا

Zulfiqar Ali Bhutto

Zulfiqar Ali Bhutto

اکتوبر 1983ء …. اِک ہوائے کرم تھی کہ مجھے پیچنگ سے اُڑائے اُڑائے دہلی لے آئی۔ پندرہ دن کے لیے۔ اور اس کے بعد مجھے پاکستان میں اپنی دھرتی پر پائوں رکھنے تھے جہاں سے مَیں چھ سال پہلے اکتوبر 1977ء میں نکلا تھا۔ فوج کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹے جانے کے لگ بھگ چار ماہ بعد…. تب پکڑ دھکڑ جاری تھی اور اب بھی، اتنے برسوں بعد…. ذہن کے کسی نہاں خانے میں یہ خدشہ موجود تھا کہ اپنی سر زمین پر قدم رکھتے ہی دھرنہ لیا جائوں۔ 1980ء میں ایک دوست دہلی سے آتے ہوئے میرے لیے ایک کتاب لے آئے تھے IF I AM ASSASINATED ۔ یہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں ذوالفقارعلی بھٹو کا آخری بیان تھا۔ اسے دہلی کے ویکاس پبلشرز نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا، ہندوستان کے معروف و ممتاز صحافی پر ان چوپڑا کے پیش لفظ کے ساتھ۔ بیان کیا تھا…. تاریخ کا ایک دھارا تھا۔ ایک دریائے فصاحت تھا۔ مَیں نے اِس کا اردو ترجمہ کیا، یہ سوچ کے کہ کبھی تو وقت آئے گااور مَیں اِسے اپنے وطن میں کتابی صورت میں چھاپ کے شائع کر دوں گا۔ اور جو وقت آنے پر مَیں نے کیا۔

اگلے روز میں کناٹ پلیس، دہلی میں ویکاس والوں کی دکان پہ جا پہنچا اور سیاسیات کے موضوع پر کتابیں دیکھنے لگا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ کتاب فروش بہت بڑا نفسیات دان ہوتا ہے۔ کاونٹر کے ایک گوشے میں کھڑے، ایک صاحب نے، ایک نامانوس اور اجنبی سی صورت کو یوں کتابوں میں کھویا دیکھا تو قریب آگیا۔ اُس کے نظریں میری نظروں کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ پھر اُس نے کتابوں کے بارے میں گفتگو چھیڑ دی اور باتیں کرتے کرتے اچانک سوال جَڑ دیا، ”آپ یہاں کے تو نہیں لگتے، کہاں سے آئے ہیں؟ اب میرے پاس اپنا پس منظر اور دکان پہ آنے کا سبب بتائے بِنا کوئی چارہ نہ تھا۔ باتیں کرتے کرتے وہ ذراسا جھکا اور ایک کتاب میرے سامنے رکھ دی۔ ”آپ کو IF I AM ASSASINATED مل گئی مگر یہ کتاب نہ ملی ہو گی۔” میرے سامنے ذوالفقار علی بھٹو کی ایک اور کتاب NOTES FROM DEATH CELL رکھی تھی۔ مرتّب کا نام تھا۔ B.L.KAK ۔مَیں نے ورق گردانی شروع کی تو اندازہ ہوا کہ بھٹو تو تاریخ میں ُگندھی الہامی سیاست کا نابغہ تھا۔

اِن دونوں کتابوں کے ہندوستان پہنچنے کی دلچسپ کہانی بھی سامنے آئی۔ ضیائی دور میں اُن کی پاکستان میں اشاعت کی کوششیں چوں کہ ناکام ہو چکی تھیں لہٰذا دونوں مسوّدے، یعنی IF I AM ASSASINATED اور NOTES FROM DEATH CELL پُرزوں کی شکل میںممتاز کشمیری صحافی بی ایل کاک تک اسمگل ہو کے پہنچے۔ ”روزنامہ آفتاب”، سری نگر نےIF I AM ASSASINATED کے کچھ حصوں کا ترجمہ کرکے چھاپ دیا۔ بعدازاں مکمل مسودہ ویکاس پبلشرز، دہلی اور NOTES FROM DEATH CELL بی ایل کاک نے شائع کیے۔ NOTES FROM DEATH CELL کے بارے میں ابتداً اِن شکوک کا اظہار کیا گیا کہ یہ من گھڑت ہیں۔ لیکن اُن کی زبان اور اندازِ تحریر و بیان نے بالآخر ثابت کر دیا کہ یہ ”پُرزے”، ہوائی پُرزے نہ تھے۔ کشمیری ہونے کے ناتے مجھے ایک معاملے میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی کشمیری رکن اور کمیٹی کی جوائنٹ سیکریٹری محمودہ بیگم سے ملنا تھا۔ اُن سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میںکہنے لگیں، ”تمہارے ذوالفقار علی بھٹو آخر کیا شے تھے؟

وطن کی محبت اور اصول پرستی کا جھنڈا بلند رکھتے ہوئے سُولی پہ ُجھول گئے۔ اور اَن گنت لوگوں کو زندہ رہنے اور مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ دے گئے۔ تمہاری جانب اگر عام لوگ اُن کے نام پر کوڑے کھا رہے ہیں تو سرحدوں کے اِدھر کشمیری بھی ذوالفقار علی بھٹو کی عظمت کے نعرے بلند کرتے نہیں تھکتے۔” مَیں کیا جواب دیتا۔ ایک طمانیت ، اور ُچھپا کے دونوں کتابیں لیے، مَیں سرحد پار کر کے اپنی دھرتی پہ لوٹ آیا۔

ذوالفقار علی بھٹو جغرافیائی حد بندیوں کی حامل سیاسیاستِ عالم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن کے نوٹس پڑھ کے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ تاریخ کا دامن تھامے جب وہ ماضی، حال اور مستقبل کے متوقع احوال و واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں، پیش گوئیاں کرتے ہیں تو اُن پر اپنی اَنا یا َسند کی مہر ثبت نہیں کرتے بلکہ سیاسیات کے ایک طالب علم کا اندازروا رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1970ء کے عشرے میں روس، امریکا، افغانستان اور ہندوستان، جنرل ضیا، جنرل ایوب، سب کے بارے میں کال کوٹھری میں بیٹھ کر اور سرِمقتل جو سیاسی اور تاریخی پیش گوئیاں کیں، وہ حقیقت کا روپ دھار کے ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ اُن کی باتیں ایک سیلِ رواں، اور ہر دور کے مورّخوں کے لیے انمٹ دستاویزیں ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اِس ملک، اپنے وطن، پاکستان کے عوام کو جن جمہوری اور سیاسی راہوں پر گامزن کیا، انہیں زبان دی، آواز دی، جمہوریت اور سیاست کی سنگلاخ راہوں پر چلنے کا جو حوصلہ بخشا، راہ میںآنے والی فوجی ُجنتائوں ایسی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی جو ہمت دی، اس کی توضیح کے لیے ہمیں کم و بیش 1945ء کے زمانے میں لوٹنا ہوگا۔ تاریخ سبق تو سکھاتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ بے رحم بھی ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پورے سیاسی کردار میں اور اُن کے اُس عرصۂ محشر میں جہاں وہ اپنے عوام کو جمہوریت کی آگہی دے رہے تھے، اُن کے بہت سے سیاسی مخالفین اُن پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے۔

کسی نے انہیں ملک دشمن، ملک توڑنے والا، جاگیردار، فیوڈل سوچ رکھنے والا کہا تو کوئی انہیں دائرۂ اسلام ہی سے خارج کرنے پرتُلا رہا۔ اِن ساری باتوں کے توڑ کا آغاز امریکی جریدے ”نیوزویک” (NEWSWEEK) کے 1945ء سے 1948ء کے شمارے کرتے ہیں۔ اِس جریدے میںذوالفقار علی بھٹو کی تحریریں جریدۂ عالم پر گویا ثبت ہو کر دوام پا چکی ہیں۔ وہ سرمایۂ شبّیری ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب برِصغیر میں تحریکِ حصولِ پاکستان پورے زوروں پہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو تب امریکا میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ مگر اُن کی سرگرمیاں، اُن کی جواں سال توانائیاں اُس تحریک کے ساتھ تھیں۔ اُن کا قلم چل رہا تھا، ”نیوز ویک” کے صفحات پر۔ قیامِ پاکستان کے بعد کسی بھارتی نے اُسی امریکی جریدے میں بانیٔ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے خلاف مضمون لکھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک انہوں نے قائدِاعظم کی بلند کر داری اور کامیابیوں کے حوالے سے ”نیوز ویک” میں اپنا ایک جامع اور مربوط مضمون نہ چھپوالیا۔ وہ دل و جان سے پاکستانی تھے۔

محبِ وطن تھے۔ جمہوریت پسند ہی نہیں، جمہوریت پرست تھے۔ اِسے حالات و واقعات کی ستم ظریفی اور تاریخ کا جبر جانیے کہ انہیں اقتدار کی غلام گردشوں میں آنے کے لیے فوجی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ اور کچھ عرصے تک اُن کے ساتھ ہی چلنا پڑا۔ لیکن حقائق آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ انہوں نے اِسی ملک، اپنے وطن پاکستان کے کچلے اور پِسے ہوئے عوام کو سر اُٹھا کر چلنے کا درس دیا۔ بلکہ انہیں ساتھ لے کر چلے۔ بانیٔ پاکستان قائدِاعظم کے بے وقت انتقال، ایک گہری سازش کے تحت وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے قتل اور دوسری سازشوں نے بھاری فوجی بوٹوں کی دھمک تیز تر کردی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس نے ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے خلاف کام کیا؟ ایوب خان نے سندھ، ستلج، چناب، راوی اور جہلم جیسے دریائوں کا پانی ہندوستان کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کسی نے نہ پوچھا، بلکہ عالمی خصوصاً امریکی دبائو میں انڈس بیسن ٹریٹی (INDUS BASIN TREATY) پر بڑی واہ واہ ہوئی۔ تاریخ کے دھارے کو ہم تھوڑا سا پیچھے لے جائیں تو دیکھتے ہیں کہ جب ریڈکلف کمیشن ہندوستان اور پاکستان کی بائونڈری لائن کی نشاندہی کر رہا تھا۔

تو اُس کے ارکان میں برٹش انڈین آرمی کی طرف سے کرنل محمد ایوب خان شامل تھے، جو بعدازاں پاکستان کے فوجی حکمران بنے۔ اِسی کمیشن نے 17 اگست 1947ء کو یعنی 14اگست کو قیام پاکستان کے چار دن بعد مسلمان اکثریتی آبادی والے علاقے گورداس پور، اجنالہ تحصیل اورتحصیل قصور کا دو تہائی حصہ ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیا۔ اور افسوس کی بات تو یہ تھی کہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی نے بھی اِس پر اعتراض نہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنل ایوب کو کس قوت نے، کس بنیاد پر کمیشن کا رکن بنایا؟ حساس معاملے میں کون اس فاش غلطی کی پشت پناہی کر رہا تھا؟ کیا یہ اپنے نئے وطن، اپنی سر زمین، اپنی مٹی سے غداری نہیں تھی؟

سیاسی جوڑ توڑاور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں سکندر مرزا پاکستان کے صدر بن چکے تھے۔ قدرت اللہ شہاب اُن کے سکریٹری تھے۔ شہاب صاحب اپنی کتاب ”شہاب نامہ” میں لکھتے ہیں”سکندر مرزا ایک روز اچانک میرے کمرے میں آئے اور بولے، ”تم زُلفی کو جانتے ہو؟” یہ نام میرے لیے قطعی اجنبی تھا۔مَیں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے،” تعجب ہے تم رُلفی کو نہیں جانتے۔ بڑا اسمارٹ لڑکا ہے… وہ ایک نوجوان بیرسٹر ہے۔ بڑا پڑھا لکھا آدمی ہے۔ سندھ کے امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ کتابیں جمع کرنے کا بڑا شوقین ہے۔ وہ ایوانِ صدر کی لائبریری میں سندھ سے متعلق جو بہت سی کتابیں ہیں، انہیں دیکھنا چاہتا ہے۔

صدر مرزا نے مجھے ہدایت کی کہ مَیں ٹیلی فون کرکے اُس نوجوان کو اپنے پاس بلائوں اور پریذیڈنٹ ہائوس کی لائبریری استعمال کرنے میں اُس کی مدد کروں۔ میرے بلاوے پر ایک چھریرے بدن کا نہایت خوش شکل، خوبصورت، تیز طرّار، شوخ اور سیماب صفت نوجوان میرے کمرے میں وارد ہوا۔ مسٹر بھٹو میں بلا کی ذہانت اور فطانت تھی۔ اور اُنہیں جدید علوم اور اُن کے اظہار پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ چند ہی روز میں انہوں نے پریذیڈنٹ ہائوس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کے رکھ دیا۔ ایک روز وہ میرے کمرے میں بیٹھے کسی کتاب سے کچھ اقتباسات ٹائپ کروا رہے تھے کہ صدر سکندر مرزا دن کے ایک بجے میری کھڑکی کے پاس آکر رُکے۔ بھٹو صاحب کو دیکھ کر انہوں نے بلند آواز سے کہا، ”زُلفی، ُگڈنیوز فاریوُ۔ تمہارا نام یو این او کے ڈیلی گیشن میں شامل ہو گیا ہے۔”

یہ خبر سن کر بھٹو صاحب خوشی سے سرشار ہو گئے۔ صدر مرزا کے جانے کے بعد انہوں نے انگریزی ڈانس کی طرز پر میرے کمرے کے ایک دوچکر کاٹے اور پھر مجھے مخاطب کرکے اپنی مخصوص اردو میں کہا۔ ”آپ صاب دیکھو گے کہ اب مَیں اِس راہ پر آیا ہوں تو فارن منسٹر کی کرسی تک دوڑ لگائوں گا۔” بھٹو صاحب وزیرِ خارجہ کی منزل سے بہت آگے تک گئے۔ اور انجامِ کار اقتدار کے میدان کو یوں چھوڑا: جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ”اپنی پہلی ملاقات ہی سے وہ مجھے ”آپ صاب” کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ وزیر، وزیرِاعظم اور صدر کی حیثیت سے بھی انہوں نے اِس اسلوبِ تخاطب کوبڑی وضع داری سے نبھایا۔ اُن کے عروج کے آخری دَور میں بہت سے وزیروں اور اعلیٰ افسروں کو اکثر یہ شکایت رہتی تھی کہ بھٹو صاحب کابینہ اور دوسری میٹنگوں میں اُن کے ساتھ بڑی سختی، بدسلوکی اور ہتک آمیز روّیے سے پیش آتے تھے۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا۔ مَیں جیسا ”آپ صاب” شروع میں تھا، ویسا ہی آخر تک رہا۔”

Educational Institutions

Educational Institutions

”شہاب نامہ” کے اقتباس میں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کئی سوالوں کے جواب بھی ملتے ہیں۔ مثلاً اُن کا اندازِ تخاطب، رکھ رکھائو، اقتدار کی راہوں پر آگے بڑھنے کی خواہش۔ تاہم بعض سوال بھی پیدا ہوتے ہیں جو اُن کے سیاسی مخالفین، اُن کے دمِ واپسیں تک کرتے رہے۔ اُن کی فیوڈل سوچ کے برعکس عوامی انداز۔ یہ درست ہے کہ وہ ایک جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اُن کی جواں سالی کا زمانہ کس ماحول میں گزرا؟ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا اور برطانیہ کے جن شہروں اور تعلیمی اداروں میں وقت گزارا، اُن میں ہر کوئی جاگیر دار یا فیوڈل گھرانوں سے نہیں آیا تھا۔ عموماً متوسط طبقے کے طلبا اور ساتھیوں سے اُن کا ربط ضبط رہا۔ اور اِسی ماحول نے اُن میں ذہنی اور قلبی وسعت پیدا کی ۔ عام آدمی کے مسائل اور وسائل سے وہ آگاہ ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نیو یارک کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ” یہ تو سیمنٹ اور سریے کا شہر ہے۔” چائے خانوں میں دوستوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو دیر ہو جانے پر چائے خانے والے دروازے بند کرنا اور بتیاں بجھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اٹھتے ہوئے، ویٹر کو ٹپ (TIP) نہیں دیتے کہ ”یہ کیا بات ہوئی۔ ہم چائے پی رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں اور انہوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیئے۔”

ماہرینِ عمرانیات کی رائے ہے کہ نوجوانی کے زمانے کی باتیں اور خیالات ذہن پر جو نقوش چھوڑتے ہیں وہ دوام پا جاتے ہیں۔ اور شاید یہی کشادہ ذہنی اور عوامی افکار عملی زندگی میں اُن کے لیے نشانِ راہ بنے۔ اُن سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، فیوڈل سوچ بھی اکثر غالب آئی لیکن، عوام میں شعور کی بیداری اور پختگی کا جو ارفع کام انہوں نے کیا وہ اُن کی خامیوں یا کمزوریوں پر غالب آجاتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح کے تذکرے کا یہ موقع نہیں۔ اُن کے بعد آنے والی سول یا فوجی قیادت میں ہمیں کوئی ایسی مقتدر شخصیت نہیں ملتی جس کے لیے عام آدمی دیوانہ ہو گیا ہو۔ جس کے ساتھ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو، جس کے لیے لوگوں نے خود سوزی کی ہو، جیلیں کاٹی ہوں، کوڑے کھائے ہوں… لاہور اور قرب و جوار کے علاقوں میں آج بھی ایسے لوگ مل جائیں گے جن کے پاس بھٹو صاحب کے کوٹ کا کوئی ٹکڑا تبرّک کی مانند محفوظ ہو کہ ایک عام جلسے میں بھٹو صاحب نے اپنے سامنے سیلِ رواں کی مانند اُمنڈتے ہجومِ بے کراں کو دیکھ کر وفورِ جذبات میں اپنا کوٹ اتار کے اُچھال دیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے اَن گنت ٹکڑے ہوگئے۔ جس کے ہاتھ جو ٹکڑا لگا وہ تبرّک سمجھ کے لے گیا۔ بھٹوصاحب کی کرشماتی شخصیت میں، بہر طور، کچھ تو تھا۔ ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ جمہوریت، جمہور سے بنتی ہے۔ اور آج بھٹو صاحب کو جان سے گزرے 35 برس بیتنے کے باوجود عوام کے لیے انہیں بھول جانا ممکن نہیں ہو سکا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت اور اِس راہ پر اُن کی پیش رفت بھی حیرت بداماں کر دیتی ہے۔ 1962ء تک، ہم دیکھتے ہیں کہ ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے نے جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ چین، پاکستان کے دو سال بعد آزاد ہو ا۔ گو، پاکستان کے حوالے سے چین نے کبھی بھی مخالفانہ روّیہ اختیار نہیں کیا یا اِس کا اظہار نہیں کیا۔

لیکن دیکھا جائے تو پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی گہری بنیاد یں رکھنے والے اور اِس کے عملی معمار ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ چین نے آزادی کے بعد برما اور نیپال جسے ملکوں کے ساتھ معقول سرحدی معاہدے کئے جبکہ سرحدی مسائل ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ بھی تھے۔ اور یہ مسائل انگریزوں کے نوآباد یاتی دور کے چھوڑے ہوئے تھے۔ ہندوستان نے اِس سلسلے میں چین کے ساتھ رقابت اور مسابقت اختیار کی کیونکہ وہ ایشیا کی قیادت کا دعوے دار بن رہا تھا۔ نتیجہ 1962ء میں چین اور ہندوستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کی صورت برآمدہوا اور دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کی انتہائی نچلی سطح پر جا پہنچے۔ یہاں مجھے رئیس امروہوی کا ایک مصرع یاد آگیا۔ چین اور ہندوستان کے درمیان متنازعہ سرحدی علاقے کو جغرافیائی لحاظ سے “North Eastern Frontier Area”کہا جاتا ہے جس کا مخفف (NEFA) اور اردو میں ”نیفا” بنتا ہے۔ اس سرحدی جھڑپ کے بعد رئیس امروہوی نے ”جنگ” میں ایک قطعہ لکھا جس کا ایک مصرع تھا:
ع چین کے ہاتھوں میں بھارت کا نیفا ہے۔

ایسے حالات میں بحیثیت وزیرِ خارجہ پاکستان، بھٹو صاحب نے صدرایوب خان کو قائل کر لیا کہ چین کے ساتھ سرحدی سمجھوتہ کیا جائے اور جب تک سمجھوتے پردستخط نہ ہو جائیں، اُسے خفیہ رکھا جائے۔ ایسا ہی ہوا اور فروری 1963ء میں اِس سمجھوتے پر دستخط ہو گئے۔

بھٹو صاحب اپنی سوچ کے اعتبارسے عالمی سطح کے مدّبر اور سیاست داں تھے۔ انہوں نے اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک نئی جہت دی۔ لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہ کانفرنس اس جہت کا نقطۂ عروج تھی۔ ہماری ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک میں مطلق العنان اور آمرانہ حکومتوں کا رواج ہے۔ بھٹو صاحب نے اس نوع کی سیاسی برف کو پگھلانے کی بھی کوششیں کیں اور اگر عالمی طاقتیں اُن کی خود مختارانہ پالیسیوں اور آزادیٔ فکر کے خلاف نہ ہوتیں اور انہیں سازش کے تحت ہٹا کر دنیا ہی سے رخصت نہ کروا دیتیں تو آج شاید اسلامی دنیا کا حال کچھ بہتر اور جداگانہ ہوتا۔ پاکستان، جغرافیائی لحاظ سے، امریکا، روس اور دیگر یورپی طاقتوں کے لیے انتہائی اسٹرٹیجک پوزیشن کا حامل ہے، لہٰذا ایک طاقتور اور خود مختار پاکستان، اِن قوتوں کے حق میں نہیں جاتا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے۔

جو اپنی سیاسی بصیرت اور آگہی کو کام میں لاتے ہوئے 93 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کو ہندوستان سے نہ صرف چھڑا لائے بلکہ پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ بھی واپس لیا۔ بھٹو جیسا شخص جوپاکستان کے دولخت ہونے پر اقوام متحدہ میں رو دے۔ اور ہندوستان کے ساتھ ہزار سال تک جنگ کی بات کرے، وہ ملک دشمن کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ ملک توڑنے کے عمل میں حصّہ دار کیسے ہوسکتا ہے؟ فروری 1963ء ہی کی بات ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی سمجھوتے پر دستخط ہو چکے تھے۔ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو پر چینی اعلیٰ حکام کتنا بھروسا اور اعتماد کرتے تھے، اِس کا اظہار ایک واقعہ سے ہوتا ہے۔ سمجھوتے پر دستخطوں کے بعد چین کے عظیم رہنما چیئرمین مائوزے تونگ سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ اِس وفد میں قدرت اللہ شہاب بھی شامل تھے۔

وہ لکھتے ہیں: ”اس وقت چیئرمین مائو کی کی عمر اسّی برس کے لگ بھگ تھی۔ لیکن اُن کا گول مٹول، نیم خوابیدہ چہرہ بچوں کی طرح پُرسکون اور مطمئن دکھائی دیتا تھا۔ مسٹر بھٹو کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرتے ہی چیئرمین مائو نے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا:? IS EAST PAKISTAN TRANQUIL (کیا مشرقی پاکستان میں امن و امان ہے؟)

اُس زمانے میں مشرقی پاکستان میں بظاہر کسی خاص شورش کے آثار نمایاں نہ تھے۔ اس لیے چیئرمین مائو کا یہ سوال مجھے کسی قدر بے ُتک، بے موقع اور بے محل محسوس ہوا۔ لیکن اِس کے بعد کئی دعوتوں اور استقبالیوں میںوزیرِاعظم چواین لائی اور وزیرِ خارجہ مارشل چھن ای اور چند دوسرے چینی اکابرین بھی اپنے اپنے انداز سے ہمیں مشرقی پاکستان کے متعلق خاص طور پر باخبر اور چوکنّا رہنے کی فرداً فرداً تاکید کرتے رہے۔”

اِن احوال کی روشنی میں بھٹو صاحب مشرقی پاکستان یا آج کے بنگلہ دیش کے معاملات میں اتنے غبی نہیں ہوسکتے تھے۔ انہیں دانستہ طور پر غلط فوجی یا سیاسی اقدامات میں گھسیٹاگیا۔ قدرت اللہ شہاب 1965ء میں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1965ء کی جنگ میں سیز فائر کے بعد بھٹو صاحب نیو یارک سے واپسی پر لندن سے گزرے ۔ وہاں سے وہ ایسے ہوائی جہاز میں بیٹھے جو ایمسٹرڈیم میں بھی رُکتا تھا۔ ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر اُتر کر انہوں نے مجھے ہیگ میں ٹیلی فون کرکے کہا، ”مَیں یہاں صرف تم سے ملنے اُترا ہوں۔ فوراً ایئرپورٹ آجاؤ۔ اپنے سفارت خانے والوں کو ہر گز نہ بتانا کہ مَیں یہاں اُتراہوں۔ تم اکیلے آجاؤ۔”

مَیں جلدی جلدی کار میں بیٹھ کر ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر پہنچا جو ہیگ سے بیس پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے …مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ مسٹر بھٹو کو کہاں تلاش کروں کہ کے ایل ایم کے وی آئی پی مسافروں کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون میری طرف بڑھی اوربولی، ”آئیے، مَیں آپ کو آپ کے فارن منسٹر کے پاس لے چلتی ہوں۔”

راستے میں اُس خاتون نے بتایا کہ جس جہاز سے مسٹر بھٹو کراچی جارہے ہیں۔ وہ ٹھیک پندرہ منٹ کے بعد روانگی کے لیے تیار ہے ۔ انہیں دس منٹ میں ضرور جہاز پر سوار ہوجانا چاہیے…مَیں نے یہ بات بھٹو صاحب کو بتائی تو وہ بولے ، ”دراصل مَیں صرف دس بارہ منٹ باتیں کرنے کے لیے یہاں نہیں رکا۔ کیا یہ خاتون ایسا بندوبست نہیں کرسکتی کہ مَیں دوتین گھٹنے بعد کسی اور فلائٹ سے کراچی روانہ ہوسکوں؟”

کے ایل ایم کی خاتون نے مسکراکر کہا، ”نوپرابلم سر۔ اپنا ٹکٹ مجھے دیجئے ۔مَیں ابھی ساراانتظام کرکے آتی ہوں۔” دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے بھٹو صاحب کا سامان نکلوایا اورتین گھنٹے بعد ایک اور ہوائی کمپنی کی پرواز میں کراچی کے لیے اُن کی نشست بھی محفوظ کرالی۔ اِس کے بعد اُس نے کہا، ”اگر آپ یہ وقفہ ایئرپورٹ پر ہی گزارنا چاہیں تو ہمارا وی آئی پی ریسٹ ہاؤس حاضر ہے۔ ”

بھٹوصاحب نے کہا، ”شکر یہ ہم کچھ دیر کے لیے باہر گھومنے جائیں گے ۔ یہ خیال رکھیے کہ مَیں یہاں صرف اپنی ذاتی حیثیت میں رُکا ہوں۔ اس لیے پریس یا پروٹوکول والوں کو خبر نہ دیں۔”
بھٹو صاحب نے ائیر پورٹ سے باہر آکر مجھ سے پوچھا، ”تمہارا ڈرائیور کیا کیا زبانیں جانتا ہے۔ مَیں نے بتایا کہ وہ نیا ملازم ہے اور اردو یا انگریزی بالکل نہیںجانتا ۔ ”بس یہ ٹھیک ہے۔” بھٹو صاحب خوش ہو کر بولے۔ ”اب دو ڈھائی گھنٹے مجھے اپنی کار میں ایمسٹرڈیم کی سیرکرائو اور وقت پر ائیر پورٹ پہنچا دو۔” کار میں بھٹو صاحب مسلسل بولے جارہے تھے۔ اِس میں صدر ایوب اور چند فوجی جرنیلوں کی کم ہمتی، کوتاہ اندیشی اور فنِ حرب کی مہارت کے فقدان کا ذِکر تھا۔ اُن کے سینے میں دبا تلخیوں کا لاوا، اُن کی گفتگو کی روانی میں بہہ بہہ کر مسلسل نکل رہا تھا۔ وہ بار بار ایک بات دہرا رہے تھے۔

پہاڑ جیسی غلطیوں اور بلاوجہ نا کامیوں کے کاروبار میں وہ صدر ایوب کا مزید ساتھ نہیں دے سکتے… مَیں اِس شش و پنج میں تھا کہ وہ خاص طور پر ایمسٹرڈیم میں رُک کر یہ ساری باتیں مجھے کیوں سنا رہے ہیں؟ شاید وہ اپنے خیالات صدر ایوب تک پہنچانے کے لیے مجھے آلۂ کار بنانا چاہتے ہیں۔ مَیں نے اپنا یہ مفروضہ اُن کے سامنے رکھ دیا تو وہ ہنس کر بولے، ”ارے بھائی، مَیں ایسے کسی مقصد کے ساتھ یہاں نہیں آیا۔ مَیں صرف اس لیے یہاں رُکا ہوں کہ تمہارے ساتھ صاف گوئی سے باتیں کرکے اپنے دل کا غبار نکال لوں۔ کیونکہ مجھے مکمل اعتماد ہے کہ تم میری باتیں اپنے تک ہی رکھو گے اور اِن کا کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھائو گے۔”
مجھے خوشی ہے کہ مَیں نے بھٹو صاحب کے اعتماد کو پورا پورا نبھایا۔ اور اِس وقت اِس واقعہ کو قلمبند کرنے سے پہلے کسی کے ساتھ اِس کا ذِکر تک نہیں کیا۔

اور اب ہم واپس ستمبر 1968ء میں آجاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے حیدر آباد میں میر رسول بخش تالپور کی قیام گاہ پر ایک کنونیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:وطن کے بہادر کسانو، مزدورو،طالب علمو اور جمہوریت پسند ساتھیو، میرے ضمیر کی آواز تھی کہ عوام میں لوٹ آئو اور مَیں نے ایسا ہی کیا… لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی….. اوآخرِ ستمبر 1968 ء ….. مَیں اُن دنوں چین سے سالانہ چُھٹی پر پاکستان آیا ہوا تھا۔شام کا وقت عموماً روزنامہ جنگ کراچی کے نیوز روم میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزرتا۔ ایک شام بڑے میر صاحب (میر خلیل الرحمٰن) ہاتھ میں چند کاغذ پکڑے تیسری منزل سے سیڑھیوں کے راستے تیز تیز قدم اُٹھاتے دوسری منزل پر نیوز روم میں داخل ہوئے۔

پہلے استاد یوسف صدیقی سے کچھ کہا پھر مجھے دیکھا تو ایک الگ پڑی چھوٹی سی میز کے ساتھ رکھی کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ مَیں بیٹھ گیا تووہ کاغذ میرے سامنے رکھتے ہوئے، استاد یوسف صدیقی سے مخاطب ہوئے، ”یہ ترجمہ رشید بٹ کردے گا۔ آپ بس اس پر نظر رکھیں، بھاگ نہ جائے۔” پھر نیوز پرنٹ کی کچھ سلپس (Slips) میرے سامنے رکھ دیں۔ مَیں نے مسوّدہ دیکھا تو وہ ٹائپ شدہ کاغذوں کی کاربن کاپی تھا۔ اُس زمانے میں فوٹو کاپی کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ بھٹو صاحب کی اُس تقریر کا متن تھا جو اُنہیں اگلے روز حیدرآباد کنونشن میںکرنی تھی۔ جتنی دیر مَیں ترجمہ کرتا رہا، یوسف صدیقی صاحب تو میرے سر پہ سوار رہے ہی، میر صاحب بھی ہر دس پندرہ منٹ کے بعد آ کے جھانک لیتے تھے۔ جنگ کراچی کے آرکائیوز میں پڑا اُس روز کا اخبار، بھٹو صاحب کی تقریر کے، میرے ترجمہ شدہ متن، کے ساتھ اشاعت کا گواہ ہے۔

Protest

Protest

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ بڑے میر صاحب خطرات مول لینے سے گھبراتے نہ تھے۔ ایوب خانی آمریت کے زمانے میں کوئی صدائے احتجاج چھاپنا یا بادِ مخالف کے جھونکوں کو تحریری شکل دینا بڑی ہمت اور حوصلے کا کام تھا! بھٹو عوام میں لوٹ آئے لیکن انجامِ کار اُنہیں اِس جرأتِ رندانہ پر جان کا نذرانہ دینا پڑا۔

تحریر:رشید بٹ