دوستی کے جواب میں کنٹرول لائن پر فائرنگ

Indian Army

Indian Army

بھارتی فوج کی جانب سے ایک بار پھر سیز فائر لائن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جمعہ کی صبح کوٹلی کے نکیال سیکٹر میں پاکستانی چوکیوں پرسول آبادی پر بھارتی ہتھیاروں سے گولہ باری اور شدید فائرنگ کی گئی جس سے دو پاکستانی فوجیوں سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں جن میں ایک کمسن بچی بھی شامل ہے۔ بھارتی فوج نے سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری پر بھی بلااشتعال فائرنگ کی تاہم پاک فوج کے جوانوںنے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور دشمن کی توپوں کو خاموش کروا دیا۔ فائرنگ کے اس تازہ واقعہ میں زخمی بھارتی فوجیوں کی شناخت نائیک رقیب اور سپاہی تیمور کے نام سے ہوئی ہے۔

بھارتی فوج کی طرف سے کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے پاکستانی فوجیوں اور سول افراد کو نشانہ بنانے کی مذموم حرکتیں وقتا فوقتا جاری رہتی ہیں۔2003ء میں دونوںملکوںکے مابین کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا مگر یہ معاہدہ صرف ایک مشترکہ اعلانیہ تک ہی محدود ہے کیونکہ پچھلے ایک سال میں بھارتی فوج کی طرف سے دوسوسے زائد مرتبہ اس معاہد ہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔خاص طور پر گذشتہ چند ماہ کے دوران جب بھارت میں لوک سبھا انتخابات قریب تھے تو ہر دوسرے دن کنٹرول لائن پر فائرنگ کی جاتی تھیں جس کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس ایک خاص قسم کا ماحول پید ا کر کے اور اپنی عوام کوپاکستان کے خلاف نفرت آمیز رویہ دکھا کر بی جے پی کو شکست اور ہندوئوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی تھی۔

اس دوران کبھی جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعیدکی جانب سے کنٹرول لائن کے دورہ اور کبھی بھارتی فوجیوں کے سر کاٹ کر لیجانے کے دعوے کر کے عالمی سطح پر پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوششیں کی جاتی رہیں تاہم کانگریس اس سب کے باوجود الیکشن میں کامیاب نہ ہوئی البتہ بی جے پی نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایااور انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی بھی حاصل کرلی۔ نریندر مودی کے برسراقتدا آنے پر بعض نام نہاد دانشور بھارت سے دوستی لگانے کی باتیں کررہے تھے۔

کہاجارہا تھا کہ مودی کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے پر حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور اب وہ مسلم کش فسادات اور پاکستان سے تعلقات بگاڑنے کی کوششیں نہیں کریں گے لیکن یہ محض ان کی خام خیالی تھی حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد جمعہ کو کنٹرول لائن پر حملہ ہونے والا یہ انتہائی شدید نوعیت کا حملہ تھا جس میں پاکستانی فوجیوںکی پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ پاکستان کیلئے واضح پیغام ہے کہ وہ آنے والے دنوںمیں کنٹرول لائن پر ماحول کو مزید بھڑکائے گا۔ہم سمجھتے ہیںکہ اس وقت پاکستان کے خلاف عالمی سازشیں عروج پر ہیں ایک طرف دہشت گردی، تخریب کاری، لسانیت ، وعلاقائیت اور فرقہ پرستی کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔

تو دوسری طرف کنٹرول لائن پر ماحول مزید گرم کیاجارہا ہے تاکہ پاکستان کو دیوار سے لگا دیا جائے اور اتنا کمزور کر دیا جائے کہ بھارت کو آسانی سے اس خطہ کا تھانیدار بنایا جا سکے۔ جوںجوں امریکہ اور اس کے اتحادی اس خطہ سے اپن بوریا بستر لپیٹ کر جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ اس وقت سخت خوف میںمبتلا ہے کہ امریکیوںکے اس خطہ سے نکلنے کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ایک بر پھر عروج پکڑے گی اور اسے مقبوضہ کشمیر میں اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

America

America

امریکہ بھی اس وقت پوری کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح اس خطہ سے نکلنے کے بعد وہ بھارت کو ہم پر مسلط کر سکے۔اسی منصوبہ بندی کے تحت پچیس ہزار سے زائد بھارتی فوج افغانستان پہنچ چکی ہے۔ نریندر مودی جسے عالمی ایجنڈے کے تحت انتخابات جتوائے گئے ‘ کی کامیابی کے بعد یہ بات طے تھی کہ پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی بڑھے گی اور کنٹرول لائن پر بھی حالات مزید خراب ہوں گے اور بھارت امریکہ کی شہ پر پاکستان کو مشرق و مغرب سے دبائو میں لانے کی کوشش کرے گا۔ یہ سب باتیں اب درست ثابت ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردوںکو تربیت دیکر پاکستان داخل کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے۔

دوسری طرف کنٹرول لائن پر پاکستانی چوکیوں اور سول لوگوںکو نشانہ بنا کر پاکستان پر ہی معاہدہ کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر آزاد کشمیر میں چینی فوج کو لاکر بٹھانے کا بھی جھوٹا پروپیگنڈا کیاجارہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں چینی فوج موجود ہے اور مبینہ طور پر تعمیراتی کاموںکو جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارت کی طرف سے اس سے قبل بھی اس نوعیت کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں جس کا مقصد محض پاکستان اور چین کے خلاف پراپیگنڈا کرنا ہے۔

اگر بالفرض چینی انجینئرز سڑکوں کی تعمیرات کے حوالہ سے کام بھی کر رہے ہیں تو انہیں فوجی قرار دیکر طوفان برپا کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کو بھارت کے اس پراپیگنڈا کا فی الفور جواب دینا چاہیے۔ سشما سوراج نے دو دن قبل چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران چینی فوج کی لداخ میں مبینہ دراندازی کا معاملہ بھی اٹھایا جس کی چینی وزیر خارجہ مسٹر وانگ نے صاف طور پر تردید کی اور کہا کہ وہ کسی دوسرے ملک کی سرحدی حدود میںمداخلت نہیں کرتے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو چینی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت اور ان کیلئے نتھی ویزہ پالیسی پر سخت اعتراض ہے۔

وہ اس کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن چین نے ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ چین کی کشمیر پالیسی میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آ سکتی اور یہ اس کی طرف سے کشمیریوں کے لئے علیحدہ ویزا (کشمیریوں کے لئے بھارتی پاسپورٹ کے بجائے الگ کاغذ پر ویزا)کی فراہمی کا عمل برقرار رہے گا۔ چینی وزیر خارجہ کا دورہ بھارت کے دوران یہ بھی کہنا تھا کہ چین اپنے مفادات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے کسی طور پر تیار نہیں ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ بھی بھارت سرکار کے حوالہ سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں ۔ آپ ہزاروںمسلمانوںکے قاتل مودی سے دوستی کیلئے پلکیں بچھارہے ہیں، تحائف بھیجے جارہے ہیں مگر دوسری جانب سے کنٹرول لائن پر پاکستانی چوکیوں پر فائرنگ اور کراچی ایئرپورٹ پر حملوں جیسی کاروائیاںکر کے جواب دیاجارہا ہے۔

Afghanistan

Afghanistan

اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا انتقام لینے کیلئے بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔ان سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے جرأتمندانہ پالیسیاں ترتیب دیکر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے اور ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اگر یہی کمزور اور نرم رویہ اختیار کیا گیا تو وہ آئندہ بھی پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی سازشوں سے باز نہیں آئیں گے۔

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005