کراچی (اسٹاف رپورٹر) فوج پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی محافظ و امین ہی نہیں بلکہ پاکستان کا وہ دیانتدار و فرض شناس ادارہ بھی ہے جس پر عوام پاکستان کو فخر و اعتماد کاملہ ہے اور عوام افواج پاکستان کے ہر افسر و جوان سے محبت و پیار کرتے ہیں۔
مگر کچھ سازشی عناصر اپنی شرپسندانہ فطرت کی تسکین کیلئے عوام پر مظالم و جبر کیلئے فوج کا نام استعمال کرکے نہ صرف عوام و فوج کے اعتماد ومحبت کے رشتے میں نقب لگارہے ہیں بلکہ فوج جیسے باوقار ادارے کی بدنامی کا باعث بھی ہیں اور ایسے سازشی عناصر کیخلاف تادیبی کاروائی فوج و متعلقہ اداروں کا فریضہ اور فوج کے وقار کے تحفظ کیلئے ناگزیر عمل ہے۔
ہزہائی نیس سر نواب مہابت خان رائل فیملی فاؤنڈیشن و ٹرسٹ کے چیئرمین نوابزادہ غلام محمد خان اور ان کی اہلیہ و رائل فیملی ٹرسٹ کی جنرل سیکریٹری بیگم شاہ بانو غلام محمد نے آرمی چیف ‘ڈی جی آئی ایس آئی ‘ کور کمانڈر کراچی ‘ ڈی جی رینجرز ‘ آئی جی سندھ ‘ ڈی آئی جی کراچی ‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ ‘ چیف جسٹس ہائی کورٹ سندھ ‘صدر ووزیراعظم پاکستان ‘ گورنر و وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر داخلہ سے تحفظ و سیکورٹی کی فراہمی اور اپنے اہلخانہ پر نامعلوم افراد کی جانب سے گزشتہ روز تشدد کا احوال سناتے ہوئے میڈیا نمائندگان کو بتایا کہ گزشتہ روز وٹز کار میں سوار کچھ نامعلوم افراد نے 26اسٹریٹ ہماری گاڑی روک کر ہمیں اور ہمارے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مغلظات بکیں۔
جب ہمارے گارڈز نے سیلف ڈیفنس کے طور پر ہوائی فائرنگ کی تو وہ حملہ آور ہمیں یہ دھمکی دیتے ہوئے فرار ہوگئے کہ ” ہم کور کمانڈر کھاریاں کے بھتیجے ہیں اور تم لوگوں کو نہیں بخشیں گے اور تمہاری و تمہاری جونا گڑھ کی نوابی نکال کر دکھائیں گے”۔نامعلوم افراد کی اس قبیح حرکت کے باعث ہمارے بچے انتہائی خوف کا شکار ‘ پریشان اور اضطرابی کیفیت سے دوچار ہیں اسلئے ہمیں اور ہمارے اہلخانہ کونواب آف جونا گڑھ ہزہائی نیس سر نواب مہابت خان کی فیملی کا حصہ ہونے کی حیثیت سے وہ تحفظ و سیکورٹی فراہم کی جائے۔
تو آئین پاکستان اور قائد اعظم و نواب مہابت خان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی رو سے ہمارا استحقاق ہے جبکہ ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار کے نام کے سہارے بدمعاشی کرکے خوف و ہراس پھیلانے اور ہم پر تشدد کرنے والے کورکمانڈر کھاریاں کے حقیقی یا خود ساختہ بھتیجوں کو گرفتار کرکے ان کیخلاف تادیبی کاروائی کی جائے تاکہ ذاتی شر پسندی کی تسکین کیلئے فوج کا نام لیکر فوج کو بدنام کرنے کی روایت کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔