بحیثیت ایک مسلمان اور محب وطن ہونے کے ناطے اپنے وطن اور اپنی فوج سے محبت کرنا میرے ایمان کا حصہ ہے ۔اورہر پاکستانی کے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ افواج پاک ہی ہے جن کی عظیم قربانیوں کی بدولت آج ہم آزاد ملک میں آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں مگر افسوس کہ چند مفاد پرست ،وطن اور ضمیر فروش عناصرافواج پاک کے کردار اور گفتار پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ان کا مقصد پاکستان کو توڑنا ہے اس سے بھی بڑھ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب بکے ہوئے اقتدار کے پجاری ان طاغوتی طاقتوں کا آلٰہ کار بن کر اپنوںکی کردار کشی کرتے ہیں اغیار کی زبان بولتے ہیں وطن عزیز بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے(ایڈ ولف ہٹلر)کہتا ہے ”کسی بھی قوم پہ ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنا دو کہ وہ اپنے ہی محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ”پاکستان کی دھرتی ان عظیم اللہ کے سپاہیوں کے مقدس لہو کی مقروض ہے۔
ہم کو افواج پاکستان کا مشکور وممنون ہونا چاہیے مگر چند غدار، ان وطن محافظوں کو دہشتگرد اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں فوج کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ایسے میں جہاں اس پاک دھرتی پر غدار موجود ہیں وہاں پر کروڑوں جان نثاران وطن موجود ہیں سیدہ نور الصباح ہاشمی کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے وطن اور فوج سے بے پناہ محبت کرتی ہیں انکی پہلی کتاب ”فوج نے پاکستان کو کیا دیا؟”ہے جو انہوں نے لکھ کروطن اور فوج سے اپنی محبت کا حق ادا کردیا ہے ۔اس کتاب کی تیاری میں انکی معاونت اور لمحہ بہ لمحہ رہنمائی عصر حاضر کے عظیم کالم نگار،مصنف،محقق سیاسی وعسکری تجزیہ نگار اور جہاد افغانستان وکشمیر کے غازی اور جنرل ضیاء الحق شہیدکے پرنسل اٹیچی فاروق حارث العباسی نے کی ہے۔
کتاب کا انتساب انہوں نے دنیا کی عظیم اور پاکستان کی مایہ ناز خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور ارض پاک کی عظیم اسلامی فوجی قوت کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور وطن عزیز پر نثار ہونے والے ہزاروں سرفروشوں اور لاکھوں مجاہدین ِ وطن جن کی لازوال قربانیوں اور جرات وجواں مردی پر ملک وملت کو فخر وناز ہے کہ نام کیا ہے۔
کتاب کے اندرافواج پاکستان کے عظیم ہیروز کی داستان شجاعت (مافوق الفطرت کارناموں )پر مشتمل 28مضامین ہیں ۔ٹائٹل پر جنرل قمر جاوید با جوہ کی خوبصورت تصویر اور دیگر جنگی آلات کی تصاویرز ،بہت ہی خوبصورت اور دلکش ٹائٹل ہے وہ اپنے ایک مضمون (کالا باغ ڈیم ،سازشیں اور جنرل ضیاء الحق کی کاوشیں) میں لکھتی ہیں ”یہاں پر یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1982ء میں اس پر دوبار کام شروع ہوا ۔جنرل ضیا الحق کی ذاتی دلچسپی اور کاوشوں کے باعث اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (UNDP)نے فنڈ کی یقین دہائی کرائی چنانچہ فنڈز کی فراہمی کے بعد رپورٹس تیار کرنا شروع ہوئیں ۔جنرل ضیاالحق نے جون 1988ء میں جب یہ رپورٹس دیکھیں تو اس کارآمد منصوبے پر علمدرآمد کے احکامات جاری کیے کہ یہ منصوبہ باقاعدہ طور پر ماہ نومبر میں شروع کردیا جائے ،جس پر تیاریاں شروع ہوئیں مگر اسے بڑی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد وہ ایک فضائی حادثہ میں شہید ہو گئے۔
یہاں پر یہ بات بھی نہایت قابل ذکر ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق نے کالا باغ ڈیم بنانے کا حتمی فیصلہ کیا اور تمام مخالفین کے ساتھ سختی سے نپٹنے کا عہد کر لیا تو محمد خان جونیجونے 14مارچ 1986ء کو اچانک کالا باغ ڈیم کی تعمیر روکنے کے احکامات جاری کردیئے ،جو پھر جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات کی بنیاد بنے ڈیم کے سلسلہ میں جنرل ضیاء الحق نے میاں نواز شریف کو مکمل اعتماد میں لیا ہوا تھا اور میاں نواز شریف اس بارے میں اپنی بڑی جذباتی اورقومی رائے رکھتے تھے ،یہی وجہ تھی کہ جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد جب میاں نوازشریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو 2ستمبر 1988 ء کو انہوں نے ایک جم غفیر کے سامنے نہایت جذباتی انداز میں للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں جنرل ضیاء الحق کا مشن پورا کرونگا ”اور پھر جب وقت گزرتا گیا تو ان کا ایک یہ بیان بھی شہ سرخی کی صورت میں نظر سے گزرا ”ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ ہم نے ایک فوجی آمر کا ساتھ دیا”(ستمبر 1965ء کی جنگ ،بھارت یاد رکھے گا)مضمون میں لکھتی ہیں کہ ”ہندئوستان نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی پاکستان سے دشمنی اور اسے نقصان پہنچانے کی پالیسی اختیار کرلی تھی۔
یہی نہیں بلکہ آزادی سے قبل ہی بھارتی لیڈروں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان کبھی طاقتور ملک نہیں بن سکتا اوریہ ایک کمزور اور بے وقعت ملک رہے گا اور جلد ہی دوبارہ ہندئوستان کے ساتھ ملنے کے لیے اپنے گھٹنے ٹیک دے گا ۔اچانک 6ستمبر1965ء کو ہندئوستان نے لاہور پر حملہ کردیا تاکہ اس کی توجہ کشمیر سے ہٹائی جاسکے پاک افواج نے بھارتی فوج کے 800سے زائد ہلاک کردئیے اور پٹھان کوٹ پر حملہ کرکے بھارت کے 22طیارے تباہ کردئیے ۔7ستمبر کو پاکستانی فوج نے بھارت کے ہر حملے کو بری طرح ناکام کردیا اور بھارت کے 31طیارے مارگرائے ۔8ستمبر کو لاہور کے محاذ پر بھارت کو شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا اور بھارتی فوج اپنا جنگی سازوں سامان چھوڑ کر فرار ہوگئے۔”(جنرل ضیاء الحق شہید۔۔۔ایک عہد ساز شخصیت) میں لکھتی ہیں کہ قوموں کے اندر قدرت نے کچھ ایسی ہستیوں کو قائم رکھا ہوتا ہے جن کے وجود کی برکت سے وہ قومیں قوی وتنومند اور بھاری بھر کم جثے کے ساتھ اپنے پائوں کھڑی نظر آتی ہیں جن میں خود اعتمادی اور احساس حمیت نمایاں طور پر دیکھی ومحسوس کی جا سکتی ہے۔
لہذا اسی خصوصیت کی بناء پر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے بارے میں برملا کہی جاسکتی ہے کہ یہ ہستی بھی انہی ہستیوں میں سے ایک تھی جس کے وجود سے ملک میں رحمت کے بادل تو چھائے ہی رہتے تھے مگر بطور خاص ایک طرف پوری قوم خود کو طاقت کا سرچشمہ اور حقیقتاًایک قوم خیال کرتی تھی تو دوسری طرف ملک وملت کے بدخواہ اور دشمنان اسلام پر بھی خوف ودہشت طاری رہتی تھی”(پاک فوج کے سپہ سالار کمانڈر انچیف جنرل سرفرنیک والٹر میسروی سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک ،1947سے2018تک مختصر تاریخ) میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے لکھتی ہیں ”جنرل قمر جاوید باجوہ موجودہ بدترین دور سیاسی وقومی صورتحال اور اندرونی وبیرونی دبائوکو جس خندہ پیشانی اور تحمل وبرداشت کے ساتھ کنٹرول کر رہے ہیں ،یہ انکے مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کا واضح ثبوت ہے بالخصوص بدترین امریکی دبائو جسے وہ کسی خاطر میں نہیں لاتے ،ایک بہترین مسلم افواج کے مایہ ناز سپہ سالار ہونے کی بھی دلیل ہے ”بے شک یہ کتاب ہماری نوجوان نسل جو کافروں ،یہودیوں کے ظالموں اور دہشتگردوں کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے انکے لیے گوہر نایاب سے کم نہیں اس وقت ،وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ہمارے محسنوں کی قربانیوں کا علم ہونا چاہیے افواج پاک پر انگلیاں اٹھانے والوں کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے۔نورالصباح بجا طور پر کتاب کی اشاعت پر مبارکباد کی مستحق ہیں ۔کتاب کے حصول کے لیے رابطہ نمبر۔03335329356 کریں ۔ ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن تم کو زندہ رہناہے قیامت کی سحر ہونے تک