تحریر : فضل خالق خان نائن زیر و پر چھاپہ پڑتا ہے ، مختلف اداروں کو انتہائی مطلوب افراد گرفتار ہوجاتے ہیں ،ایم کیو ایم کا قائد میڈیائی گماشتوں کے ذریعے نمودار ہوکر رینجرز اور ان کی کارروائی کے خلاف ہرزہ سرائی انتہائی الفاظ (تھے اور تھے ہوجائیں گے) کے ساتھ شروع ہوکر دھمکیوں پر اُتر آتے ہیں،اب ایک بارپھر انتہائی حساس معاملات میں کچھ اور ملزمان کی گرفتاری پر موصوف پھر سیخ پا ہوکر براہ راست آرمی چیف کو دھمکیاں دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہاری چھڑی نہیں رہے گی ۔ اور ہندوستان کی ”را” ایک بار ہمار ا ساتھ دے تب دیکھیں گے کہ کیا کرتے ہیں اور کو ن باقی رہتا ہے ۔یہ تمام باتیں کس جانب اشارہ کرتی ہیں۔
سب اچھی طرح جانتے ہیں لیکن پھر بھی سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ اتنے واضح ثبوتوں کے بائوجود اتنی ڈھیل چہ معنی دارد ۔سال 1986 میں کراچی میں ایک معمولی روڈایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں سے آغاز کرنے والے مہاجر قومی موومنٹ کواتنی ڈھیل کس بات پر دی جارہی ہے ۔ اس وقت کے حالات اگر کسی کو بھولے نہیں ہوں تو یاد کریں فورسز کے جوانوںکو اغوا کرکے ان کو قتل کرنے کے بعد لاشوں کی بے حرمتی اس انداز سے کی جاتی تھی کہ انسانیت کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے تھے ۔ اس کے بعد گورنر سندھ حکیم محمد سعید اور محمد صلاح الدین کی شہادتیں بھی شائد کوئی بھولا نہیں ہوگا ۔جس کے واضح ثبوتوں کے بائوجود کسی کارروائی کا نہ ہونا ہی ان لوگوںکو شیر کرگیا ۔ اور آج ان کی کارروائیاں ایسی ہوچکی ہیں کہ کوئی ان کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ اگر بروقت ان کو صرف ایک سیاسی تنظیم کے حوالے سے ٹریٹ کیا جاتا تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا آج وہاں جانے سے قبل بندے کو ہزار مرتبہ سوچنا پڑتا ہے ۔ اس کے علاوہ جو لوگ وہاں مستقل رہائش پذیر ہیں ان کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم کہ کب کس کے ساتھ کیا وقوع پذیر ہوسکتا ہے ۔ اب تک کے حالات جو بھی تھے اسے کسی حد تک برداشت کیا جاسکتا تھا (بوجوہ) لیکن اب تو ان لوگوں کی ہرزہ سرائی براہ راست ملک کی حفاظت پر مامور اداروں سے ٹکرائو کی صورت اختیار کرچکی ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر چہ اس حوالے ایک نہایت ذمہ دار عہدے پر موجود شخصیت سے دوران گفتگو اس بات کا انکشاف ہوچکا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کا کچھ عرصہ قبل تک نہ ہونا ضیاء الحق اور جنرل مشرف کا مہاجر ہونا ہی تھا ۔اور ان دونوں کے ادوار میں ایم کیو ایم کو پھلنے پھولنے کے بے تحاشا مواقع ملے۔
Raheel Sharif
لیکن موجودہ آرمی چیف تو افواج پاکستان کے سپہ سالار ہونے کے ساتھ ساتھ اسی مٹی کے پیداوار ہیں ان کو تو ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ وہ مہاجر کاز کیلئے کمر بستہ نظر آئیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ جو لوگ قیام پاکستان سے لے کر تاحال پاکستان نہ بن سکے تو یہ آگے جاکر کب پاکستانی بنیں گے؟۔ایم کیو ایم اپنے آغاز سے ہی ایک متعصب تنظیم رہی ہے ۔ ابتدا میں انہوں نے پختونوں سے پنگا لیا لیکن اس وقت کے مہاجر مقتدر قوتوں کی وجہ سے یہ اتنے شیر ہوئے کہ انہوں نے رفتہ رفتہ پاکستان کے تمام قومیتوں کو جو کراچی میں موجود تھے سے پنگے لے کر ان کے لئے کراچی میں رہنا مشکل بنایا۔
سیاسی تنظیم کی حیثیت سے بھی انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کا ناطقہ کراچی میں بند کئے رکھا، بوری بند لاشوں کی سیاست نے تو کراچی میں رہنے کا تصور تک ختم کردیا۔ کراچی جو روشنیوں کا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی اہم اکائی بھی تھی اس کے بڑے بڑے صنعتکار اور کاروباری لوگ کراچی سے اپنا بوریا سمیٹ کر یا تو ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل ہوئے او ریا سرے سے ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں اپنا کاروبار شروع کرنے پر مجبور کردئیے گئے۔
بھتہ مافیا کے ذریعے تو اب کراچی میں معمولی چھابڑی والے کا رہنا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔ کیا کیا گنوائوں۔ کراچی کے شہریوں کو پینے کاپانی فراہم کرنے کے نظام پر قابض مافیا کے بارے میں جستجو کی جائے تو ایم کیوایم کے کارندے نکلیں گےلینڈ مافیا کو ٹٹولو تو پشت پر ایم کیو ایم ہوگی۔ پورے کراچی شہر کو نوگو ایریا میں تبدیل کرانا بھی ایم کیو ایم ہی کا کارنامہ ہے جس پر ہردور کے حکومتوں نے اپنے مخصوص مفادات کی بناء پر مجرمانہ چشم پوشی اختیار کی۔
Altaf Hussain
لیکن کب تک ایسا ہوتا رہے گا ؟ یہ بھی کتنے شرم کی بات ہے کہ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین روز مخصوص وقت پر میڈیا پر نمودار ہوکر پورے حکومتی مشینری کا مذاق اُڑائے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ چلئے حکمران تو اس قابل ہیں کہ انہیں اسی طرح لتاڑا جائے لیکن ملکی سلامتی کے اداروں کے بارے میں ہرزہ سرائی تو ناقابل برداشت ہے اس کے بارے میں ہونے والی گفتگو کو کیسے نظرانداز کیا جارہا ہے ۔مزید صبر ان کو اس ملک کا محب وطن کبھی بھی نہیں بناسکے گا۔ برطانیہ کا شہر ی برطانیہ میں بیٹھ کر ملک عزیز اور اس کے اداروں کے سربراہوں کو بزدلی کا طعنہ دے اور یہ کوئی کارروائی نہ کریں اس سے تو یقینی طورپر ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ واقعی بزدل ہیں۔
ایک اور تماشا الطاف آج بات کرکے کل کو مکر جاتا ہے اور اگر زیادہ دبائو بڑھے تو ”تو میں معافی مانگتاہوں” کے الفاظ آجاتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہاوت ہے کہ بندے کو ماروں بھر ے بازار میں اور معافی مانگو بند کمرے میں ‘یہ تووہی بات ہوئی۔ قوم اپنے سپہ سالارسے یہ توقع رکھتی ہے کہ صولت مرزا اور اس کے بعد گرفتار افراد نے جو انکشافات کئے ہیں کسی کے خلاف کارروائی کے لئے وہ بھی کافی ہیں۔
مزید اس قوم باالخصوص کراچی کے عوام کی مشکلات کو ختم کرنے اور کراچی کو ایک بار پھرروشنیوںکا شہر بنانے کے لئے اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان کو بتادیا جائے کہ قوم کے بیٹے تھے اور قوم کے بیٹے ہی رہیں گے البتہ ان کے ٹیڑھی نظر سے دیکھنے والے تھے ہوجائیں گے۔