تحریر : شیخ خالد زاہد فوج اور سیاستدانوں کے درمیان نا تو کبھی مفاہمت کی اعلی ترین فضاء قائم رہی ہے اور نا ہی کبھی قائم ہو سکنے کے امکانات نظر آتے ہیں مصلحتاً یہ تعلقات ہمیشہ اچھے ہی دیکھائی دیتے ہیں۔سیاستدان کی بنیاد کچھ بھی ہو مگر وہ سیاست سے وابسطہ ہوکر معزز ہوہی جاتے ہیں۔ دنیا میں سیاستدان اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتے ہیں ، یہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے پاسدار ہوتے ہیں اسی طرح فوج ایک ایسا منظم ادارہ ہوتا ہے جو ملک کو خارجی اور داخلی دہشت گردی جیسے واقعات اور دشمن کی دراندازی کو روکنے اور اسکے لئے سد باب کرنے میں اپنا کردار نبھاتی ہے۔ دنیا کہ وہ تمام ممالک جہاں یہ دونوں (سیاستدان اورا فواج) اپنا اپنا کام اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے سرانجام دیتے ہیںیعنی سیاستدان عوامی فلاح و بہبود اور زندگیوں کو آسان بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں اور فوج ان کاموں میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے پرعزم رہتے ہیں ، ان ہی بنیادی وجوہات کی بنا پر یہ ممالک امن و امان کیساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان دونوں کا حقیقی مثبت باہمی ربط دنیا کے کسی اور ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس ملک کے معاملات میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی کرنے کی کوشش کر سکے۔ یہاں تک کے ایک منظم حکمت عملی اس بات کی گواہی ہوتی ہے کہ سرحدوں سے سرحدیں جڑی ہونے کے باوجود کسی قسم کی دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوتے نہیں دیکھائی دیتے۔ ان ممالک میں صورتحال کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا ہے اور صورتحال کو خراب کرنے والوں کی نشاندہی کے بعد مروجہ قوانین کے تحت انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے۔ جس کے بعد وہ سڑکوں پر نکل کر اپنے جرم کو جو چاہے کسی قسم کی غفلت ہی کیوں نا ہو عوام سے کہتے ہیں کہ میرے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے بلکہ وہ لوگ توشرمندگی سے آلودہ اپنی زندگیوں کو ختم ہی کرلیتے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ عوام کی حکومت کو جمہوریت کہا جاتا ہے مگر پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے جن لوگوں کو انتخابات میں ووٹ دے کر اقتدار کے اعوانوں تک پہنچایا وہ لوگ عوام کو ہی بھول گئے اور ایسے خاص ہوئے کے عوام آج تک ان لوگوں کو ڈھونڈ رہی ہے ، بات یہاں پہنچ کر ختم نہیں ہوگئی ہم آج بھی اکیسویں صدی بھی پرانی ہوگئی اب سوشل میڈیا کہ دور میں ہونے کے باوجود ہماری عوام بچاری کی بچاری ہی ہے ۔ عام لوگوں کو خاص بنائے جا رہی ہے جو کوئی کچھ بھی کہہ رہا ہے کئے جا رہی ہے ۔ پاکستانی جمہوریت کی اصطلاح تبدیل کر کے عوام پر حکومت خواص کیلئے رکھ دینا چاہئے۔
پاکستانی سیاستدان جب تک اپنی غلطی کو غلطی سمجھینگے نہیں اور غلطی تسلیم ہی نہیں کرینگے تو صحیح سمت میں پیشرفت ناممکن سی بات ہے۔ ہم مسلسل غلطیاں کیئے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے جا رہے ہیں۔ اسکے برعکس فوج ایک منظم ادارہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ، اپنے جوان اس عرض پاک کے دفاع کیلئے قربان کئے جا رہی ہے ۔ اس ادارے میں کچھ بھی ہوجائے ایک دوسرے پر کسی قسم کی الزام تراشی نہیں کرتے اور اگر سچ ثابت ہوجائے تو مجرم کو کیفر کردار پر بھی اسی خاموشی سے پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہ اس ادارے کا منظم اور مستحکم ہونا ہی ہے کہ یہاں ڈر اور خوف سے ماورا لوگوں کی پرورش ہوتی ہے جو دنیا کی جدید ترین سہولتوں سے آراستہ افواج کو کسی بھی مقابلے میں ہمیشہ سخت ترین حریف ہونے کا ثبوت دیتے آرہے ہیں۔
تقریباً گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کی افواج کو مختلف محاذوں پر بیک وقت جنگی حالات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے فوج کے سربراہان نے اپنے مزاج میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا اور ریاست کی وسیع تر مفادات کر مد نظر رکھتے ہوئے خود کو سیاست سے آہستہ آہستہ الگ کر لیااور فوج کو ایک مکمل پیشہ ور ادارہ ثابت کیاہے ، جس کا ثبوت ملک میں بدستور سیاسی بحران موجود ہونے کے باوجود فوج نے اپنے آپ کو ایوانوں سے باہر ہی رکھنے کو ترجیح دی ہے ۔فوج کے اس بدلتے مزاج کا فائدہ امریکی حکمت عملی مرتب کرنے والوں نے خوب اٹھانے کی کوشش کی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت گاہے بگاہے ہماری حکومت پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
دنیا کی طاقتور ترین افواج میں شمار ہونے والی افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجواہ صاحب نے ۱۹ دسمبر کو ایک نئی تاریخ رقم کی ، آپ نے ایوانِ بالا کے ممبران سے خطاب کیا اور ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی، امید ہے کہ ان کے تحفظات دور ہوگئے ہونگے۔ یہ فوج کے مزاج کی تبدیلی ہی ہے کہ آرمی چیف نے ایوان بالا (سینیٹ ) میں آکر معزز سینیٹرز کو حفاظتی صورتحال سے آگاہ کیا اور کن مسائل کا سامنا ہے اور کیا مسائل درپیش ہیں اور ہوسکتے ہیں سب سے خوب اچھی طرح سے آگاہ کیا۔ جنرل صاحب نے یہ بات بھی باور کروائی کہ حکومت مستقل بنیادوں پر مضبوط حکمت عملی مرتب کرے (خصوصی طور پر خارجہ پالیسی پر دھیان دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے)اور اس پر مکمل طور پر کاربند ہوجائے۔ ہمارے ملک کے اہم ترین ستونوں کے درمیان ہم آہنگی نا ہونے کی وجہ ہے کہ جب سے آمریکہ میں نئی حکومت اقتدار میں آئی ہے ہمیں آئے دن کسی نا کسی انداز میں دھمکیوں کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ ہمارا ہمسایہ ملک سرحدوں پر گولہ باری کرکے سرحدوں پر رہنے والوں ہمارے ہم وطنوں کو شہید کئے جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ الزام بھی ہمارے ہی دامن میں ڈالے جا رہے ہیں۔ دنیا طاقت ور کے ساتھ کھڑے ہونے کو ہی ترجیح دیتی ہے غلط اور صحیح کا معاملہ خود ہی متروک ہوجاتا ہے۔ہم آج تک اپنی حکمت عملی وطن سے محبت کے بلند و بانگ دعوے سیاستدان کرتے ہیں مگر عملی قربانیاں بطور ثبوت ہمیشہ فوج نے دی ہیں۔ اگر محسوس کیا جائے تو اس کی اہم ترین وجہ ہماری فوج کا عرض پاک سے عملی قربت اور اس مٹی میں اٹے رہنا ہے ۔یقیناًیہ ایسے تلخ حقائق ہیں جن سے شائد سیاستدان تو ناواقف ہوں مگر فوج ناواقف نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کی محبت تو مٹی پر پڑنے والی بوندوں سے اٹھنے والی خوشبو سے ہی دوبالا ہوجاتی ہے ۔ یہ ایک بنیادی وجہ پاکستان سے محبت کی ہو سکتی ہے ۔ پہلے حکمت عملی اور دیگر اہم امور خفیہ رکھے جاتے تھے اورعرصہ دراز کے بعد رازوں سے پردے اٹھتے تھے،جب اس بات کا یقین ہوچکا ہوتا تھا کہ اب اس معاملے میں کسی قسم کی کوئی جان باقی نہیں رہی۔ اگر غور کریں تو چالیس سے نوے کی دہائی تک افراد کی بہت اہمیت ہوتی تھی۔ کیونکہ انکے کارنامے بہت دھیمے انداز میں منظر عام پر آتے تھے اوردنیا ان لوگوں کی قابلیت کی معترف ہوا کرتی تھی مگر کب جب یہ منظرِ عام پر آیا کرتے تھے۔ کتنے ہی عظیم لوگ بغیر اپنی عظمت کا سہرا بندھوائے پیوندِ خاک ہوگئے۔
ہمارے ملک کے سیاستدان بارہا یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریںیا آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں ۔مگر خود اپنی حدوں کی حد کا تعین نہیں کر پارہے۔ہم اخبارات کے جلی حروف میں پڑھ رہے ہیں اورہرلمحہ با خبر رکھنے والے ٹیلی میڈیا پر دیکھ اور سن بھی رہے ہیں کہ کس طرح سے منصفوں کے انصاف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ کیا انصاف کرنے والے بھی سیاست زدہ ہوکر رہ گئے ہیں ۔ہم سب خصوصی طور پر سیاستدانوں کو لفظی نہیں عملی طور پرایک ہونا پڑے گا اور ہمیں اپنی اندرونی کمزوریوں پر خود قابو پانا پڑے گا ورنہ کوئی ابہام نہیں کہ دشمن تو پہلے ہی ہماری صفوں میں گھسا بیٹھا ہوا ہے۔ جس کا منہ بولتا ایک ثبوت کلبھوشن ہے۔ ہماری ایکتا میں ہی کسی کے تسلط کو رد کرنے کا راز ہے۔