لاہور (جیوڈیسک) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کا کہنا ہے کہ حکومتی نظام میں تبدیلی کے لیے ان کی تحریک اس کے ایجنڈے سے دور نہیں ہوگی، چاہے حکمران اس کے لیے فوج کو ہی کیوں نہ طلب کرلیں۔
جب ڈاکٹر طاہر القادری نے ان اطلاعات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا کہ حکومت آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کرنے پر غور کررہی ہے تاکہ پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے انقلاب کی اپیل کی وجہ سے بڑے شہروں میں امن و امان کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سول انتظامیہ کو مدد حاصل ہوسکے، تو انہوں نے کہا ’’تبدیلی کے لیے شروع کی جانے والی یہ تحریک اس صورت میں بھی جاری رہے گی اگر مسلح افواج مجھ سمیت ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کردے۔‘‘
انقلاب کے لیے حتمی تاریخ دینے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کے ایک گروپ کو منگل کے روز بتایا کہ پاکستان عوامی تحریک کی اندرونی سطح پر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ کرلیا جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت انتخابی سیاست سے باہر ہے تو طاہر القادری نے کہا یہ انتخابی عمل میں حصہ لے گی، لیکن صرف انقلاب کے بعد کے منظرنامے میں، جب کہ موجودہ نظام کی صفائی ہوجائے گی اور آئینی تبدیلی کے ذریعے بدعنوان افراد کو ایوانِ اقتدار تک پہنچنے سے روک دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا ’’انتخابات انقلاب کا آخری مرحلہ ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری نے اصرار کیا کہ ان کا انقلاب مکمل طور پر آئینی اور جمہوری ہے اور اسے آئین کی تباہی کے طور پر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے دلیل دی کہ ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ غیر مؤثر ہوچکا ہے، اور شہریوں کے حقوق کی فراہمی سے متعلق آئین کے پہلے چالیس آرٹیکلز پر عملدرآمد میں حکمران ناکام ہوگئے ہیں۔
طاہر القادری نے کہا کہ ابتدائی چالیس آرٹیکلز سمیت آئین کے پہلے حصے کی بے حرمتی سے ہم کیسے حکمران طبقے سے یہ توقع بنیادی قانون کے باقی حصے کا احترام کریں گے۔ جس میں آرٹیکل 240 بھی شامل ہے جو ملک اور اس کے اداروں کو چلانے والے نظام سے متعلق ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے فنڈز کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سالانہ رکنیت کی فیس کے ساتھ ساتھ عطیات سے اکھٹا ہوتا ہے۔