ممبئی (جیوڈیسک) بھارتی فوج کے سربراہ نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ان کی فوج میں ہم جنس پرستی ناقابل قبول ہے۔ اس بیان پر انہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارتی فوج کے چیف جنرل بپن راوت اپنے ایک حالیہ بیان پر ایک مرتبہ پھر تنقید کی زد میں ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انہیں وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے کہ انہوں نے فوجیوں کو ہم جنس پرستی سے منع کیوں کیا؟ جنرل راوت نے دارالحکومت نئی دہلی میں جمعرات دس جنوری کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، اگر سویلینز ہم جنس پرستی پر مبنی افعال سر انجام دینا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کریں لیکن فوج میں یہ نہیں چلے گا۔ بھارتی فوجی چیف کے بقول آرمی میں ہم جنسی پرستی ناقابل قبول ہے۔
ستمبر سن 2018 میں اپنے ایک تاریخی فیصلے میں بھارتی عدالت عظمی نے برطانوی دور کے ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل قرار دینے والے ایک قانون کو ختم کر دیا تھا۔ البتہ یہ امر اہم ہے کہ بھارتی فوج کے اہلکاروں پر ان کے اپنے ذرا مختلف قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ فوجی قوانین میں چند ایسے معاملات پر سخت موقف اپنایا گیا ہے، جن پر عام شہریوں کے لیے آئین میں مقابلتا زیادہ چھوٹ ہے۔ فوجی قانون میں ہر وہ فعل جو ظالمانہ ہو، غیر اخلاقی ہو، غیر فطرتی ہو اور بے عزتی کا سبب بنے، مجرمانہ فعل مانا جاتا ہے۔ ایسے کسی فعل پر سات سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
بھارت میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اشوک رو نے فوج کے چیف جنرل بپن راوت کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ ان کا اس بارے میں کہنا تھا، میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ ہم جنس پرستی سے خوفزدہ ہیں تاہم انہوں نے اس معاملے میں لا علمی اور معلومات نہ ہونے کا مظاہرہ کیا۔ اشوک رو کے مطابق جنرل بپن راوت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ تعداد کے اعتبار سے دنیا کی ایک بہت بڑی فورس کی سربراہی کر رہے ہیں اور چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہیں، اتنی بڑی تعداد میں ضرور کچھ فوجی ہم جنس پرست رجحانات رکھتے ہوں گے۔ رو نے کہا جنرل راوت کو ان کی صحت اور خوشی اور فوجیوں کی خوشحالی کی فکر ہونی چاہیے نہ کہ وہ ان کے تعاقب میں نکل پڑیں اور انہیں نشانہ بنائیں۔
ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل قرار دینے والے برطانوی راج کے قانون کو ختم کرانے کے عمل میں سرگرم ایک وکیل آنند گروور کے مطابق یہ کافی حوصلہ شکن بات ہے کہ جنرل بپن راوت کی ساکھ کے حامل کسی شخص نے ایسا بیان دیا۔ تھامسن روئٹرز فانڈیشن سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، اس سے ایک ہم جنس پرست شخص محسوس کرے گا کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک اپنایا گیا اور وہ خود کو مجرم محسوس کرے گا۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارتی فوج کے چیف تنازعے کی زد میں ہیں۔ پچھلے ماہ ٹیلی وژن پر ایک انٹرویو کے دوران وہ یہ کہہ بیٹھے تھے کہ خواتین فوج میں لڑاکا مشنوں کے لیے تیار نہیں کیونکہ اس سے ان کی ازدواجی ذمہ داریاں بھی متاثر ہوں گی اور وہ میدان جنگ میں اچھا محسوس نہیں کریں گی۔