تحریر : سید توقیر حسین زیدی پاکستان فوج کے اعلیٰ افسروں اور ماتحتوں کے خلاف مختلف نوعیت کی شکایات کی تحقیق کے نتائج ایک ہی ساعت میں مشتہر کرکے جی ایچ کیو نے ملک بھر کو حیرت زدہ کر دیا اور کرپشن کے حوالے سے بہت بڑا جھٹکا دیا ہے، ہر کوئی جنرل راحیل شریف کی تعریف کر رہا ہے، بلکہ جو لوگ فوج کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں، سیمنٹ اور کھاد کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ کمرشل بنکوں پر معترض تھے وہ بھی اس احتسابی عمل پر اطمینان اور تعریف کا اظہار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ان افسروں کے خلاف یہ تحقیقات جاری تھیں اور اس بارے میں کوئی تشہیر نہیں بلکہ میڈیا کو ہوا بھی نہیں لگی تھی لیکن نتیجہ برآمد ہوا تو ایک دم چکاچوند ہو گئی اب میڈیا کے پاس دوسرا کوئی موضوع ہی نہیں حتیٰ کہ پاناما لیکس پر گفتگو بھی دب سی گئی ہے۔ اس فیصلے کی تعریف بے جا تو نہیں لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ فوج میں احتساب کا اپنا نظام ہے اور تسلسل سے جاری رہتا ہے۔ ان افسروں کی سزاؤں کی تشہیر ہو گئی ورنہ نہ صرف تحقیقات ہو رہی تھیں بلکہ ان سے پہلے بھی سزائیں ہو چکی ہیں، اس لئے جھٹکا تو لگا لیکن یہ تسلسل ہے صرف تشہیر کا فرق ہے۔
Nawaz Sharif and Imran Khan
اب صورت حال یہ ہے کہ سبھی سیاست دان پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ سب کو خود احتسابی کا عمل جاری کرنا چاہیے۔ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف بھی یہی کہہ رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی احتساب احتساب کی گردان شروع کر چکے۔ قارئین دھیان رہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے چلے آ رہے ہیں، اب تو پاناما لیکس کا بھی چرچا ہے اور تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ دوسری جماعتیں بھی دباؤ بڑھا رہی ہیں، قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور خود بلاول بھٹو بھی خود احتسابی کا عمل شروع کرنے کا کہہ رہے ہیں، اسی ہماہمی میں الیکشن کمیشن کے پاس موجود اراکین پارلیمنٹ کے گوشوارے پھر سے اشاعت پذیر ہوئے۔
وزیراعظم اور عمران خان ایک جیسی حیثیت کے مالک نکلے اور دونوں کا بیرونی ملک کوئی اثاثہ نہیں، اسی گوشوارے کے مطابق ہمارے پیارے مولانا فضل الرحمن کے پاس اپنی کار بھی نہیں ہے۔ ہمیں حیرت ہے تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا بھی وزیراعظم محمد نوازشریف، آصف علی زرداری، عمران خان اور بلاول بھٹو والا سلسلہ ہے کہ یہ حضرات دوسروں کے طیاروں پر سفر کرتے ہیں۔
وزیراعظم کو تو اب سرکاری جہاز کی سہولت حاصل ہے لیکن دوسرے رہنما تو ہوائی جہاز مستعارلینے پر خوش رہتے ہیں، ایک ہمارے مولانا فضل الرحمن ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے قومی ایئر لائن سے سفر کرتے ہیں، اب پتہ چلا کہ ان کی ملکیت کوئی کار بھی نہیں، ہم آج تک ان کے زیر استعمال لینڈ کروزروں کو ان کی ملکیت ہی سمجھنے کی غلطی کرتے رہے ہیں لیکن یہاں اس معاملے میں ہوائی جہاز والا مسئلہ ہے کہ جہاز نہ سہی لینڈ کروزر ہی سہی۔ پاناما لیکس کا مسئلہ سنجیدگی اختیار کر گیا ہے۔
Sharif Family-Panama Leaks
وزیراعظم نے کابینہ سے غیر رسمی اجلاس میں مشاورت کی۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے وفاقی وزیر زاہد حامد کی یہ تجویز ٹھکرا دی کہ وسط مدتی انتخابات کرا دیئے جائیں، وزیراعظم نے کہا کہ ان کا دامن صاف ہے اور وہ تحقیقات سے نہیں گھبراتے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے گوشوارے سامنے ہیں۔ یوں ان کے حامی پرجوش نظر آنے لگے ہیں۔ اس لئے یہ بھی قابل عمل ہی محسوس ہوتا ہے کہ تحقیقات ہو چاہے دائرہ کتنا ہی وسیع کر دیا جائے۔ نظر بظاہر وزیراعظم کا اپنا نام پاناما لیکس میں نہیں، ان کے صاحبزادوں کا ذکر ہے تو وزیراعظم کا موقف ہے کہ ان کاکاروبار اپنا ہے۔
اب معاملے کی نوعیت کچھ یوں ہوگئی ہے کہ بلاول بھٹو نے بھی فوجی عمل کی بہت تعریف کی اور یہی کہا کہ سب کو اپنے اندر سے احتساب کرنا چاہیے اور شائد انہوں نے پھوپھو کی تصاویر والدہ اور نانا کے قریب سے ہٹوا کر ایسی ابتدا بھی کر دی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بعض سینئر راہنماؤں کے بیانات بھی احتساب کے حق میں ہیں، اس سے یہ مراد لی جا رہی ہے کہ احتساب کے حامی پارٹی کے اندر بھی تطہیر چاہتے ہیں اور کرپٹ عناصر کو اس طرح الگ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
حالات ایسے خراب نہیں جتنا شور مچایا گیاکہ عوام کہہ رہے ہیں ”چور وی کہندے چورو چور”۔۔۔ بہرحال ہمارے یقین کے مطابق مسئلہ صرف کمیشن کی تشکیل اور تحقیق سے حل نہیں ہوگا کہ اگر کمیشن کا دائرہ کار بڑھایا گیا تو امکانی طور پر تاخیر ہوگی جبکہ محرکین کو تاخیر برداشت نہیں۔ اس لئے پاناما لیکس تحقیقات کو ایک الگ مسئلہ رہنے دیا جائے اور باقی عمل احتساب سے پورا کریں، اس مقصد کے لئے نظام احتساب لازم ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ ایوان میں زیر غور احتساب بل کو مکمل کرکے خودمختار، آزاد احتسابی ادارہ بنا دیں اللہ سب کا بھلا کرے گا۔