لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) لاہور میں قومی احتساب بیورو کی طرف سے میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ وہ ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر پر موجود نہیں ملے اور ابھی تک کسی کو یہ نہیں پتا کہ پاکستان کے قائد حزب اختلاف اس وقت کہاں ہیں؟
منگل کے روز نیب نے سابق وزیر اعلی پنجاب اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں طلب کر رکھا تھا۔ شہباز شریف نے اپنے نمائندے کے ذریعے نیب حکام کو ایک خط بھجوا کرکورونا کے خطرے کی وجہ سے پیش ہونے سے معذوری ظاہر کر دی۔ اپوزیشن لیڈر نے اپنی عدم پیشی سے متعلق نیب میں جو جواب جمع کروایا، اس میں موقف اختیار کیا کہ کورونا وائرس اس وقت اپنے عروج پر ہے، نیب کے کچھ افسران بھی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی عمر 69 برس ہے اور وہ کینسر کے مریض بھی رہے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ وہ سکائپ کے ذریعے نیب کے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے تیار ہیں لیکن نیب حکام اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے شہباز شریف کی گرفتاری کا فیصلہ کیا۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے نیب کی ٹیم پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ماڈل ٹاؤن پہنچی۔ اس موقع پر شہباز شریف کے گھر کی طرف جانے والے تمام راستوں کو آہنی رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا اور وہاں اکٹھے ہو جانے والے میڈیا کے افراد کو بھی دور ہٹا دیا گیا۔ شہباز شریف کی گرفتاری کا سن کر مسلم لیگ نون کے درجنوں کارکن وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے حکومت اور نیب کے خلاف نعرے بازی کی۔
اس موقع پر پولیس اور لیگی کارکنوں کے مابین ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ شہباز شریف کے گھر کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے گئے تھے۔ نیب کی طرف سے وارنٹ گرفتاری دکھائے جانے کے بعد نیب کی ٹیم کو گھر میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ گھر میں داخل ہونے والی نیب کی ٹیم نے لیڈیز پولیس کے ہمرا شہباز شریف کے گھر کی تفصیلی تلاشی لی لیکن شہباز شریف ان کے ہاتھ نہ آ سکے۔
ماڈل ٹاون سے مایوس لوٹنے کے بعد شہباز شریف کے موبائل فون سے ان کی لوکیشن کی معلومات حاصل کر کے نیب کی ٹیم نے ڈیفنس میں شہباز شریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن وہ وہاں بھی موجود نہیں تھے۔ شریف فیملی کی جاتی عمرہ والی رہائش گاہ پر جانے والی نیب کی ایک اور ٹیم بھی شہباز شریف کو ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کے لئے درخواست دائر کر رکھی تھی۔ ارجنٹ میٹر ہونے کے باوجود آج اس درخواست کی سماعت نہ ہو سکی، توقع ہے کہ اس کی سماعت اب کل ہوگی۔ اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کل عدالت میں پیش ہونے کی صورت میں شہباز شریف کو وہاں سے گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مسلم لیگ نون کی رہنما مریم اورنگزیب نے شہباز شریف کے گھر کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں، جب حکومت کورونا کو کنٹرول کرنے اور چینی چوروں کو پکڑنے میں ناکام ہو چکی ہے ایسے میں وہ اپنی نا اہلی سے توجہ ہٹانے کے لئے شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے اقدام کر کے میڈیا کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹا رہی ہے۔
ادھر حکومتی شخصیات کا موقف ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے ایشو پر کوئی معافی نہیں۔ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے، جو اپنے طور پر کارروائیاں کر رہا ہے۔ ان کے بقول انصاف کا تقاضا ہے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔ سب کو بتانا ہو گا کہ ایک ایسے وقت میں، جب پاکستان کے بہت سے ادارے شدید خسارے میں ہیں، سیاسی شخصیات کے رشتے دار اور بچے کیسے دولت کے انبار لگا لیتے ہیں؟
پاکستان کے تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شہباز شریف کی گرفتاری کی کوششوں کے بعد پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا ہے اور کورونا، ٹڈی دل اور معیشت کے بحرانوں کے دور میں ایسے اقدامات کو پسندیدہ قرار نہیں دیا جا رہا ہے۔
ان کے بقول بعض حکومتی شخصیات کی طرف سے شہباز شریف کی گرفتاری کے اشارے دیے جا رہے تھے، ”دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کے وارنٹ پر اٹھائیس مئی کی تاریخ درج تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ نیب نے انہیں ہر صورت میں گرفتار کرنا تھا۔ ‘‘
پاکستان کے سیاسی حلقوں میں شہباز شریف کی گرفتاری کی کوششوں پر مختلف تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے حامی شہباز شریف کی گرفتاری کی کوششیں اور وفاقی وزرا کے بیانات سے لگتا ہے کہ شاید عمران حکومت اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اب ایک پیج پر نہیں رہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگرچہ شہباز شریف پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بہت سرگرم تو نہیں تھے لیکن حکومت ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بڑھتی ہوئی مبینہ قربتوں اور مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف میں اتحاد بنانے کی خفیہ کوششوں سے پریشان ہو کر رد عمل کا اظہار کر رہی ہے۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدام کے سیاسی محرکات تو ہوتے ہیں لیکن ابھی شہباز شریف کی گرفتاری کی کوششوں کے بارے میں جو اندازے لگائے جا رہے ہیں، وہ صرف قیافے ہیں، حقائق سامنے آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا، ” میں آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ بجٹ سے پہلے ہونے والی یہ کارروائی کسی بڑی گڑبڑ کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘