آخر کب تک؟؟

Police

Police

تحریر: مشی ملک
چند ماہ قبل کی بات جب لاہور میں ایک چھے سالہ بچے کی لاش مدرسے میں لٹکتی ہوئی پائی گئی اور اسی مدرسے کے مسجد کے موئذن پر بچے سے زیادتی اور قتل کا شبہ ظاہر کیا گیا اور موذن کو گرفتار بھی کیا گیا اور بقول پولیس تشویش کے دوران انہیں موذن کے علاوہ بھی تشویش کا دائرہ بڑھانا پڑاتو معلوم ہوا کہ وہ زیادتی اور قتل ایک 15 سالہ حجام نے کیا پھر پولیس کی پھرتیاں پولیس نے موذن کو رہا کر دیا۔

حجام کو گرفتار کرلیا گیا اور اسی دوران اسے پیشی پر عدالت لے جاتے ہوئے راستے میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ 15 سالہ لڑکا پولیس کی گن چھین کر پولیس پر فائر کرنے لگا تو مجبوراً انہیں ان کائونٹر کرنا پرا اور وہ ایک دہشت ناک واقعہ کا سرغنہ مارا گیا جس میں مجھے تو لگتا ہے 1فیصد بھی سچ نہیں تھا اس طرح کا پولیس گردی کا واقعہ چند دن قبل پیش آیا فیصل آباد میں ایک پارک میں دو بچے آپس میں کھلونا پستول سے کھیل رہے تھے کہ پولیس کی گاڑی آن رُکی جو کہ پنجاب پولیس کی گاڑی میں بلکہ ایک پرائیویٹ گاڑی کو چند روز قبل کی بات ہے فیصل آباد میں پھر ایک بار ایک معصوم بچہ سفاک انسپکٹر فرہاد چیمہ کی فرعونیت کی بھینٹ چڑھا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ آفیسر کالونی کا رہائشی فرحان خان ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد روزہ کی حالت میں گھر سے نکلا اور دوستوں کے ساتھ گھر کے ساتھ قریبی پارک میں وقت گزارنے کی غرض سے چل پڑا جہاں فرحان اور فہد دونوں دوست موبائل میں سلفیاں بنارہے تھے اور ان کے چند دوست بھی ہمراہ تھے یہ معصوم بچے آپس میں ہنسی مذاق کررہے تھے کہ پولیس کی پرائیویٹ گاڑی آکر رُکی جس میں سیولین پولیس آفیسر ایس ایچ او سمیت چار اور پولیس اہلکار بھی تھے جنہوں نے گاڑی سے اُترتے ہی فرحان اور فہد پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی انہیں اتنی زحمت بھی گوارہ نہ تھی کہ دو معصوم بچوں کو بات چیت کے ذریعے اپنے قریب لاتے اور اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتے کہ واقعہ کیا ہے کیا کوئی ڈاکو راہگیروں کو لوٹ رہے ہیں بقول ایس ایچ او فرہاد چیمہ انہیں ایک کال موصول ہوئی اور ایک شخص نے بتایا کہ تھانہ مدینہ ٹائون کے قریبی پارک میں کچھ ڈاکو دن دہاڑے عام شہریوں کو لوٹ مارکررہے ہیں اور وہ ڈاکو مسلح ہیں پولیس جو کہ ہمیشہ بڑے سے بڑے سانحے پر بھی وقت پر نہیں پہنچتی۔

اس واقعے پر وقت پر پہنچ گئی اور آئو دیکھا نہ تائو گولیوں کی بوچھاڑ کردی وہ بھی دو کمسن بچوں پر جن کے ہاتھ میں کھلونا پستول تھا ذرائع کے مطابق فرحان خان 9thکا سٹوڈنٹ تھا اور فرحان خان ولد افتخار خان اپنے چار بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا اور وقت گزاری کی غرض سے اپنے دوست کے ہمراہ گھر کے قریبی پارک میں گیا جہاں چند دوستوں کے ساتھ تصویریں بنانے کا شوق چرایا نقلی پستول سے دونوں دوست ایک دوسرے پر پستول تاننے کی اداری کرنے لگے، اور ہنسی مذاق کرنے لگے، اتنے میں اچانک ایک گاڑی قریب آکر رکی جس میں ایس ایچ او سمیت پانچ اہلکار نمودار ہوئے اور آناً فاناً فرحان خان اور فہد پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور جب پولیس والوں نے بچوں کے ڈھیر ہونے پر قریب جاکر دیکھا تو بچوں کے ہاتھ میں کھلونا پستول تھا اسی اثناء میں ان زخمی بچوں کو سول ہسپتال فیصل آباد پہنچایا گیا بدنصیبی سے فرحان خان زخموں کی تاب نہ لاسکا اور موقع پر جاں بحق ہوگیا۔

Chief Minister Punjab Shahbaz Sharif

Chief Minister Punjab Shahbaz Sharif

جبکہ اسکا دوسرا ساتھی تاحال زیرعلاج ہے میڈیا پر ہلچل مچی تو جناب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ازخود نوٹس لیا اور تمام اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا، اور تمام اہلکار پکڑے جن پر نجانے کونسی دفعہ کے تحت پرچہ کاٹا گیا فرحان کے والدین کا اصرار ہے کہ پولیس پر قتل ،اقدام قتل اور دہشت گردی کا مقدمہ درج ہونا چاہیے اور اس سارے واقعے کی چھان بین کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب نے تین رکنی کمیٹی کا اعلان کیا۔ہم وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے اس اقدام کو سرہاتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ انکوائری عام انکوائریوں کی طرح فائلوں میں بند نہ ہوگی۔

بہر حال سب انسپکٹر فرہاد چیمہ اور اسکے دیگر ساتھی فی الحال پولیس کی حراست میں ہیں اور ان پر دیکھیں کس نوعیت کے مقدمے درج ہوتے ہیں مقتول فرحان کی والدہ جن کی آہ وبکا سے آسمان بھی لرز پڑا، جسکی ممتا چیخ چیخ کر کہ رہی ہے مرے معصوم بیٹے کے قاتل کو بھی پھانسی ہو میرا لعل روزے سے تھا میرا بچہ بے گناہ تھا کسی کا ناحق خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا اس زمین پر اگر انصاف کرنے والوں نے انصاف نہ کیا تو روز محشر ضرور انصاف ہوگا اور جو پولیس کی وردی پہن کر کھلے عام دہشت گردی پھیلارہے ہیں جو کبھی 14سال کے بچے کو جعلی پولیس مقابلے میں مار دیتے ہیں تو کبھی فرحان جیسے معصوم بچے کو ڈاکو کہے کر سرعام گولی چلادیتے ہیں ان کا احتساب ضرور ہوگا میں جناب وزیراعلی شہباز شریف سے بھرپور انصاف کی توقع رکھتی ہوں اور اس یقین کے ساتھ کہ پولیس میں شامل ان کالی بھیڑوں کو ان کے منطقی انجام تک ضرور پہنچائیں، پولیس جو کہ عوام کی جان ومال کے تحفظ کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

اس میں موجود چند کالی بھیڑوں کو بجائے یہ وہ پولیس افسران ہیں جنہیں اعلی سیاسی بااثر افراد اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں تو وہ کیسے اور کیونکر ایسے پولیس افسران کو سزا دلوائیں گے پنجاب میں پولیس گردی ختم ہونی چاہیے حکومت کو ایسے اقدامات کی بیخ کنی کرنی چاہیے جب سانحہ ماڈل ٹائون جیسے عاقعات رونما ہونگے تو ان پولیس والوں کو کون لگام ڈالے سکے گا آخر کب تک یہ جعلی پولیس مقابلے جاری رہیں گے کب تک کمسن بچوں کو ڈاکوں کا نام دے کر ان کائونٹر جاری رہے گا کب تک پولیس گردی سینہ تان کر ڈاکو قرار دے کر معصم بچوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے گا آخر کب تک مائوں کی گود اُجڑتی رہے گی آخر کب تک وردی میں چھپے ہوئے دہشت گرد ، دہشت گردی پھیلاتے رہیں گے آخر کب تک آخر کب تک ؟جب بڑے بڑے واقعات میں سیاسی مفادات کیلئے پولیس استعمال ہوگی تو پولیس والے بھی ایسے واقعات کو سرانجام دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی پولیس کی پشت پناہی حاصل کرنے والے بااثر افراد کو بے نقاب کرنا ہوگا شاید یہ ممکن نہیں لیکن امید کرتے ہیں کہ ایسا ضرور ہو گا۔

Mishi Malik

Mishi Malik

تحریر: مشی ملک