امریکی ایئرفورس کے 2جدید ترین ہیلی کاپٹر بگرام ایئربیس سے افغانستان کے صوبہ خوست کی جانب سے محو پرواز ہیں۔ سورج کی تمازت کم پڑ چکی ہے لیکن اندھیرا نہیں چھایا۔ ان ہیلی کاپٹروں کی منزل کا کسی کو علم نہیں تھا کیونکہ اس کے بارے میں کسی کو کچھ بتایا نہیں گیا تھا کہ وہ کہاں اور کس مشن پر روانہ ہوئے ہیں؟ البتہ امریکی صدر اور فوج کے چند اعلیٰ ترین عہدیدارن اور پینٹاگون اس سے واقف تھے۔
خوست کے پہاڑوں کے درمیان یہ ہیلی کاپٹر پہنچے تو شینوک ہیلی کاپٹر نیچے اتر گیا جبکہ کوبرا فضا میں ٹھہر گیا۔ زمین پر اترنے والے ہیلی کاپٹر سے امریکی فوج کے اعلیٰ تربیت یافتہ درجنوں میرین کمانڈوز اترے تو ان کا استقبال وہاں موجود ان 18افغان مجاہدین نے کیا جن کا تعلق امارت اسلامیہ افغانستان کے سربراہ ملا محمد عمر مجاہد سے تھا۔
یہ منظر بھی عجیب تھا کہ وہی افغان طالبان جنہیں امریکہ نے لگ بھگ 13سال پہلے ایٹم کے بعددنیا کے سب سے خطرناک ڈیزی کٹر بموں کی بارش کر کے انہیں خاکستر کرنے کے بعد اس یقین کے بعد فوجیں زمین پر اتاری تھیں کہ اب ان کا زمین پر کوئی دشمن باقی نہیں ہے، آج ایک بار پھر امریکیوں کے سامنے کھڑے ان طالبان کے چہروں پر خوشی اور مسکراہٹ تھی تو خالی ہاتھ امریکی کمانڈوز کے چہرے اترے اور جسم ڈھیلے پڑے ہوئے تھے۔ یہ امریکی کمانڈوز اپنے اس ساتھی کو طالبان سے لینے کیلئے آئے تھے جس کا نام بوگڈل bowe borgdahl تھا جسے 30جون 2009ء کو صوبہ پکتیا میں ایک لڑائی کے دوران طالبان نے گرفتار کر لیا تھا۔ برگڈل امریکی ریاست الاسکا سے تعلق رکھنے والی فوج کی انفنٹری رجمنٹ سے تھا۔
وہ گولہ و بارود کا ماہر تھا۔ اسے ابھی افغانستان پہنچے چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ وہ صوبہ پکتیا عیسیٰ خیل کے علاقے میں پٹرولنگ کے دوران طالبان کے ہتھے چڑھ گیا۔ برگڈل اس قدر ذہین تھا کہ اس نے چھ ماہ میں افغانوں کے ساتھ رہ کر پشتو بھی سیکھ لی تھی اور وہ امریکی فوج کا اہم حصہ بن گیا تھا۔ پھر پانچ سال گزرے… امریکہ نے اپنے خلائی سیاروں، ڈرون طیاروں کے ساتھ ساتھ جدید سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے افغانستان کا چپہ چپہ ہی نہیں، ذرہ ذرہ چھان مارا تھا کہ انہیں ان کا یہ فوجی مل جائے لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
18جولائی 2009ء کو طالبان نے برگڈل کے متعلق پہلی وڈیو جاری کی کہ وہ ہماری تحویل میں ہے۔ امریکہ نے تصدیق کی اور تلاش کا عمل تیز کر دیا۔ امریکہ نے تسلیم کیا کہ برگڈل کی تلاش کے لئے انہوں نے جو زمینی آپریشن لانچ کئے تھے ان میں ان کے چھ فوجی ہلاک اور بیسیوں زخمی ہوئے لیکن برگڈل نہ ملا۔
اگست 2010ء میں طالبان کمانڈر حاجی ندیم نے میڈیا پر یہ خبر جاری کر کے تہلکہ مچا دیا کہ برگڈل ان کے ساتھ مل کر طالبان کو گولہ و بارود بنانے اور جدید انداز سے دھماکے کرنے کی تربیت بھی فراہم کر رہا ہے لیکن پینٹاگون نے اسے محض پراپیگنڈہ کہہ کر مسترد کر دیا۔ اس عرصہ میں برگڈل کی پلاٹون کے ساتھی فوجیوں نے میڈیا کو بتایا کہ جب سے برگڈل کا اغوا ہوا ہے، اس کے بعد صوبہ پکتیا میں ان پر حملوں میں زبردست تیزی آئی ہے۔
یہ وہ دن تھے جب افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا پتہ پانی ہو رہا تھا۔ اتحادی ایک ایک کر کے افغانستان سے نکل رہے تھے تو امریکہ اپنی مکمل واپسی کا اعلان کر رہا تھا۔ قطر میں طالبان کے دفتر کھولے جانے کی خبریں بھی سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں اور قطر کی حکومت افغان طالبان کو پناہ گاہیں مہیا کر رہی تھی۔ یوں امریکہ نے قطر کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنے مایہ ناز بہادر کمانڈو کی رہائی کیلئے گزارش کی تو دوسری طرف سے پانچ افغان طالبان کمانڈروں کی رہائی کا مطالبہ آ گیا۔ یہ طالبان کمانڈر امریکہ کے بدنام زمانہ گوانتانامو کے قید خانے میں سالہا سال سے قید تھے۔
جی ہاں! وہی گوانتاناموکا قید خانہ جس کا نام سن کر لوگوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں اور جہاں دنیا کا کوئی قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔ یہاں موجود ان قیدیوں میں پہلے کمانڈرملا محمدفاضل اخند تھے جو طالبان کی حکومت کے دوران نائب وزیر دفاع تھے۔ دوسرے کمانڈر خیراللہ خیرخواہ تھے جو طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اور ملک کے وزیر داخلہ اور صوبہ ہرات کے گورنر تھے۔ تیسرے کمانڈر ملا عبدالحق وثیق تھے جو طالبان کے نائب وزیر انٹیلی جنس تھے۔ چوتھے کمانڈرملانوراللہ نوری تھے
Taliban
جو طالبان کے مرکزی جنگی کمانڈر ہونے کے ساتھ صوبائی گورنر تھے۔ پانچویں کمانڈر محمد نبی عمری تھے جن کے پاس طالبان حکومت کی متعدد ذمہ داریاں تھیں جن میں ملک کے محکمہ داخلہ کی سربراہی بھی تھی۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پکڑے جانے سے پہلے امریکی اور اتحادی افواج پر بڑے بڑے حملے کروائے تھے۔ ان لوگوں کی رہائی سے قبل امارت اسلامیہ افغانستان نے جو اعلامیہ جاری کیا اس کے کچھ الفاظ یوں تھے”پرمسرت لمحات میں بالعموم عوام اور بالخصوص امارت اسلامیہ کے مجاہدین اور رہائی پانے والے پانچ رہنماؤں کے خاندانوں، ہمدردوں اور اقرباء کو خوشخبری سناتے ہیں۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے پانچ رہنما جو 13 برس سے گوانتانامو عقوبت خانے میں قید تھے، سب سے پہلے اللہ تعالی کی فضل وکرم اور پھر سرفروش اور فداکار مجاہدین کی جانثاری کے نتیجے میں رہا ہوئے۔موصوف رہنما امارت اسلامیہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان کچھ عرصے سے جاری بالواسطہ گفت وشنید کے نتیجے میں مملکت قطر کے ثالثی میں رہا ئی پائی اور قطر میں مقیم اپنے خاندانوں کے ہمراہ زندگی بسر کریگی” پھر تاریخ کے مسافر نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ بالآخر 31 مئی 2014ء کی شام امریکہ کی غرور سے تنی گردن ایک مرتبہ پھر خوست کے پہاڑوں میں ڈوبتے سورج کے ساتھ جھک کرٹوٹ گئی۔
تنے ہوئے امریکی کمانڈرز سر جھکا کر طالبان سے ہاتھ ملا رہے تھے اور اپنا کمانڈو وصول کر رہے تھے تو دوسری طرف امریکہ کے قید خانے کے دروازے خود امریکیوں کے ہاتھوں بغیر توڑے ٹوٹ چکے تھے۔ امریکہ اپنے خصوصی جہاز کے ذریعے افغان طالبان کمانڈروں کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پہنچا چکا تھا جہاں ان کا انتہائی گرم جوشی سے پرتپاک استقبال کیا گیا۔ملک کے سربراہ شیخ حماد الخلیفہ کی ضمانت پر امریکیوں نے ان رہنمائوں کو خصوصی پروٹوکول کے ساتھ رہائش گاہوں میں پہنچا دیا۔
جی ہاں! وہی قطر جہاں افغان طالبان کے رہنمائوں اور کمانڈروں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے اور ان کے اہل خانہ بھی وہیں موجود ہیں۔ ان سب کو قطر کی حکومت نے ہی تمام تر سہولیات و تحفظ فراہم کر رکھا ہے اور اس قطر کو بیچ میں لا کر اب امریکہ افغانستان کے کمبل سے جان چھڑا رہا ہے۔ برگڈل کی رہائی کے بعد دنیا کے طاقتور ترین انسان اور ساری دنیا کو یک لخت برباد کرنے والا ایٹمی بٹن اپنے پاس رکھنے والے امریکی صدر کا بیان پڑھئے اور لطف اٹھایئے: “Qatri government had given the US assurance that it will put in place measures to protect our national security.”
”قطری حکومت نے امریکہ کو ضمانت دی ہے کہ وہ ہماری قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے اقدامات کرے گی” یعنی اب امریکہ پہلوان کو اس کی قومی سلامتی کے لئے تحفظ کی ضمانت ایک ننھا سا مسلم ملک قطر دے رہا ہے۔
یکم جون 2014ء کو ملا محمد عمر مجاہد کا طویل عرصہ بعد اس عظیم فتح پر بیان سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ سے 5کمانڈروں کی رہائی ہماری عظیم فتح ہے اور اس پر ساری قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، تو ساتھ ہی دنیا کی سب سے بڑی اور سپر پاور امریکہ کے وزیر دفاع نے کہا کہ اب طالبان سے براہ راست مذاکرات میں مدد ملے گی۔
اس شکست سے قبل امریکی صدر نے افغانستان کا اچانک اور چوری چھپے دورہ کیا لیکن افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی صدر کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا۔ کیا کل تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ امریکی صدر اور امریکی قوم پر یہ وقت بھی آئے گا…؟ امریکہ سو پیاز اور سو جوتے کھائے گا… ایک بار نہیں، بار بار کھائے گا…ساری امت کوبھی اس عظیم فتح پر ہماری طرف سے بھی مبارک باد۔