الیکشن نہ صرف ایک قومی فریضہ ہے بلکہ قوم کی سیاسی بصیرت کا امتحان بھی ہے ۔ ۔الیکشن کا دن قریب آتے ہی سیاستدان عوام کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور سر کا تاج سمجھنے لگتے ہیں۔ عوام کی ہر پریشانی کو اپنی پریشانی اور ہر دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے کی اداکاری شروع کردیتے ہیں۔الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی سیاستدان ووٹروں کی راہ میں اپنا دل ایسے بچھانے لگے جیسے کسی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں فرش پر قالین بچھائے جاتے ہیں جن پر لوگ گندے جوتوں سمیت چلتے پھرتے ہیں۔آج شہر شہر گاؤں گاؤں ملک کے چپے چپے پر ہر طرف امیدواروں کی بھر مار ہے۔
الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے پہلے سیاسی جماعتوں کے قائد ین آپس میں ملاقات کرکے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے نظر آرہے تھے۔ ہر سیاسی پارٹی کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی پارٹی سے اتحاد کرلے اور اگر اتحاد نہ ہوسکے تو پھرکم ازکم ایڈجسٹمنٹ توضرور ہوجائے۔ الیکشن کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے متعلق عالمی سطح پرمیڈیا، این جی اوز کے ذریعے سروے بھی ہوتے رہے۔ جن میں کبھی تحریک انصاف تو کبھی ن لیگ نمبر 1بنتی رہیں۔
جب پہلی بار تحریک انصاف کو نمبر ایک پوزیشن ملی تو یہ لوگ پھولے نہیں سما رہے تھے اورآنے والے وقت میں اپنی حکومت یقینی سمجھ رہے تھے بلکہ ان کے قائد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پی ٹی آئی کسی سے اتحاد نہیں کرے گی بلکہ تنہا الیکشن لڑے گی۔ پھر دوبارہ سروے ہوا تو اس میں انہوں نے ن لیگ کو نمبر 1قرار دے دیا۔ اس کے بعد ن لیگ میں بھی تکبر کی بو نظر آنے لگی۔ اب جب کہ الیکشن بھی قریب سے قریب تر آتا جارہا ہے ۔ اس وقت عوام کون لیگ کی پالیسیوں میں تکبر نظرآنے لگا ہے۔
میاں نواز شریف ایک ملنسار اور محب وطن انسا ن ہیں لیکن نہ جانے آج کل وہ کونسی ڈگر پر چل رہے ہیں جو عوام کو پریشانی کی طرف دھکیل رہی ہے ۔پچھلے دنوں میاں نواز سے پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین(مولانا فضل الرحمن،جماعت اسلامی، ہم خیال گروپ، اچکزئی، پلیجواور دیگر) نے ملاقاتیں کی اور کافی حدتک یہ تاثر مل رہا تھا کہ ان کے درمیان ایک سیاسی اتحاد بننے جارہا ہے۔ پھریکدم وہ اتحاد بننے سے پہلے ہی ٹوٹتا نظر آیا۔ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے یا ان سیاستدانوں کو معلوم ہوگاان ملاقاتوں کے باوجود کوئی مثبت پہلو کیوں نہیں نکلا؟بہرحال اس وقت پاکستان بھر میں ہر دوسری سیاسی پارٹی ن لیگ پر تکبر کی انگلی اٹھا رہی ہے۔
N League
ن لیگ کی غلط پالیسیوں اور احباب کے پرزور اصرار نے مجھے یہ سطور لکھنے پر مجبور کیا۔ چند دن پہلے مولانافضل الرحمن نے اپنے بیان میں ن لیگ کے طرزعمل پر افسوس کیا اور کہا کہ ن لیگ وعدہ پر پورا نہیں اتری ۔ اس کے بعد ہم خیال گروپ کے لوگ بھی ن لیگ کے رویے سے نالاں تھے اور وہ اسی بنا پر کچھ اور سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں اور اب جماعت اسلامی سے بھی راہیں جد اہوچکی ہیں۔ الیکشن اس وقت تنہا لڑنے کی پوزیشن میں کوئی بھی جماعت نہیں۔
میاں صاحب ذرا پیچھے نظر دوڑائیں تو ایسے اتحاد کی وجہ سے ہی زرداری اینڈ کمپنی نے پانچ سال مکمل کیے ۔ اگر آپ ان سروے کی وجہ سے (اللہ نہ کرے کہ آپ میں تکبر ہو)اونچی پرواز کررہے ہیں تو یہ آپکے شان شایان نہیںاور اگر آپ کے مشیر آپ کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ن لیگ کی پاکستان میں بڑی اچھی پوزیشن ہے اور ہم تنہا ہی الیکشن جیت کر اپنی حکومت بنا سکتے ہیں تو یہ مشیر آپ کی حکومت نہیں بنوا رہے بلکہ آپ کو ذلیل و رسوا کرا رہے ہیں۔
اتفاق میں برکت ہے ۔ یہ کہاوت ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں اور اس میں کوئی جھوٹ بھی نہیں ۔ یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ جن میں اتفاق نہیں ہوتا وہ کہیں کے نہیں رہتے ۔ ن لیگ کو چاہیے کہ کم از کم اپنے ان دوستوں کو ساتھ رکھے جب وہ اپوزیشن میں تھے اور ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔جماعت اسلامی اور ن لیگ کے نظریات ایک جیسے ہیں ۔ ان کو ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا چاہیے کیونکہ سنا جارہا ہے کہ پی پی اور اس کے اتحادیوں نے تحریک انصاف( عمران خان) کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ نواز شریف کو پنجاب میں حکومت نہ بنانے دی جائے۔ ن لیگ کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
کیونکہ جس طرح صوبہ سند ھ میں فنگشنل لیگ اور پلیجو سے مل کر اور بلوچستان میں اختر مینگل اور اچکزئی سے ملکر الیکشن لڑ رہے ہیں اسی طرح پنجا ب میں جماعت اسلامی اور ہم خیال گروپ کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے تاکہ جن سیٹوں پر کوئی شک ہے وہ بھی ن لیگ یا ان کے اتحادی کی کنفر م ہوسکیں۔ صوبہ خبیر پختونخواہ میں بھی کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ ضروری ہے۔ ورنہ وہاں پر اے این پی سے زیادہ پی ٹی آئی مضبوط نظر آرہی ہے۔
آج کل کے سیاسی حالات کے مطابق کچھ قوتیں پھر ن لیگ کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے سرگرم ہوگئیں ہیں۔وہ نہیں چاہتیں کہ نواز شریف پھر وزیراعظم بنے۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے قول و قرار کو پورا کریں ورنہ عوام ابھی سے بدظن ہوتی نظر آرہی ہے کہ جو اقتدار میں آنے سے پہلے ہی وعدہ خلافی کررہا ہے۔
وہ بعد میں پتا نہیں کیا کرے گا؟ اور اس کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کو آپ پر تنقید کرنے کا ایک نیا ایشو مل جائے گا۔ن لیگ اور میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ اپنے مخالفین کا منہ بند رکھنے کے لیے ملکی مفاد کے لیے مثبت فیصلے کریںخصوصاً اپنے جیسے نظریات کے حامل لوگوں سے اتحادیا ایڈجسٹمنٹ ضرور کریں ورنہ۔
Aqeel Khan
تحریر : عقیل خان svpresidentccp@gmail.com 03014251658