ہمارے پیارے اور فی الحال مجبور و مقہور کمانڈو پرویز مشرف کو حکومتِ وقت نے بقول ڈاکٹر خالد رانجھا صاحب ” بے جرم و خطا” دھر لیا ہے کیونکہ کیس تو بنتا ہی نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے نزدیک یہ انتہائی زیادتی ہے۔ اُدھر ہمارے محترم چیف جسٹس صاحب نے بھی کمال سُرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی خط پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو بھیج کر 24 گھنٹوں کے اندر پانچ ججز صاحبان کے نام مانگ لیے ہیں۔ ایسی تیزی کبھی دیکھی نہ سُنی۔ ہم محترم چیف صاحب سے دست بستہ معافی مانگتے ہوئے یہی استدعا کر سکتے ہیں کہ وہ جاتے جاتے ہم پر یہ احسان ضرور کرتے جائیں کہ ہمارے ”کمانڈو” کے لیے کوئی ”نظریۂ ضرورت” تلاش کر دیں۔ آخر پہلے بھی تو اعلیٰ عدلیہ نے کمال شفقتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے لیڈر کو تین سال دیئے ہی تھے ناں۔ اب اُن سے کونسی ایسی انہونی سر زَد ہو گئی جو ناقابلِ معافی و تلافی ہے۔
مارشل لاء تو ایوب ، یحییٰ اور ضیاء نے بھی لگایا تھا لیکن اُس پر کوئی شور اُٹھا نہ ہنگامہ اور نہ ہی کسی نے آئین کی تقدیس کی بات کی۔ضیاء الحق صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آئین سو صفحے کی (فضول سی )کتاب ہے جسے جب چاہوں ، پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں لیکن مشرف صاحب نے تو ”سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگایا اور اُس پر عمل کر کے بھی دکھایا ۔اُنہوں نے اِدھر اُدھر سے پاکستانی اکٹھے کیے اور پھر اُنہیں دہشت گرد ثابت کرنے کے بعد امریکی منڈی میں فروخت کر کے قومی خزانے کو ڈالروں سے بھر دیا۔اگر مشرف ایسا نہ کرتے تو امریکہ ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیتا جہاں ہمیں روٹی کپڑا ملتا نہ مکان ااور نہ ہی انٹرنیٹ کی سہولت ویسے آپس کی بات ہے کہ ہمیں پرویز مشرف صاحب پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہو جانے پر کوئی اعتراض ہے نہ پریشانی کیونکہ کسی کی ”چڑیا” امریکی فضاؤں سے یہ پیغام لائی ہے کہ ہمارا آقائے ولی نعمت امریکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو کچھ ہونے دے گا نہ پرویز مشرف کو اور بقول ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی محترمہ شہلا رضا ”یہ سب ڈرامہ مشرف صاحب کو کلین چِٹ دینے کے لیے رچایا جا رہا ہے۔
ہمیں تو صرف مقدمے کی ٹائمنگ پر اعتراض ہے۔ مشرف صاحب پر پاکستان آتے ہی تین مقدمات قائم ہوئے اور تینوں میں ہی اُن کی گرفتاری عمل میں آئی ۔یہ الگ بات ہے کہ اُنہیں اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور گھر بھی ایسا کہ جہاں ہر کوئی نظر بند ہونے کی تمنّا کرے۔ شنید ہے کہ اُن کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے حکومت نے اُنہیں دل بہلانے کے لیے طبلہ، سارنگی بھی مہیا کر دیئے۔ دروغ بَر گردنِ راوی وہ نظر بندی کے دوران ہر وقت یہ گنگنا تے رہتے تھے کہ ”میں کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کِس کے لیے۔ پھر ہر کیس میں ضمانت کے بعد جب وہ اپنے بوٹوں کے تسمے باندھ کر دبئی پرواز کرنے ہی والے تھے تو وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد نے آرٹیکل 6 کا شوشہ چھوڑ دیا۔
Supreme Court
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری فرماتے ہیں کہ چوہدری نثار احمد نے سانحہ راولپنڈی سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ”شتونگڑا” چھوڑا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اُنہوں نے شتونگڑا کس کو کہا لیکن جسے بھی کہا خوب کہا۔ قصوری صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف انتہائی سُرعت سے عوام میں مقبول ہو رہے تھے اور حکومت نے اُن کی مقبولیت سے پریشان ہو کر اُنہیں کہا کہ یا تو ملک چھوڑ دیں یا پھر مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ مشرف صاحب نے ”اپنی مقبولیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ”ملک چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا اِس لیے اب اُن پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ قائم کیا جا رہا ہے جو غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ اُنہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ مشرف صاحب کے گھر کے سامنے ہر وقت 20 کیمرے اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں جو اُن کی مقبولیت کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔مجھے قصوری صاحب کی کہی گئی ایک ایک بات سے مکمل اتفاق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ بَد باطن یہ کہتے ہیں کہ اگر واقعی مشرف صاحب نے باہر جانے سے انکار کر دیا تھا تو پھر اُنہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں یہ درخواست کیوں دائر کی کہ وہ اپنی والدہ سے ملنے کے لیے دبئی جانا چاہتے ہیں اِس لیے اُن کا نام ECL سے نکالا جائے۔ میرا خیال بلکہ یقین ہے کہ یہ بھی ہمارے کمانڈو کے خلاف سازش ہے اور یہ درخواست یقیناََ مشرف صاحب کے جعلی دستخطوں سے دائر کی گئی ہے۔
کیونکہ ہمارا لیڈر ”ڈرتا ، ورتاکسی سے نہیں۔ ویسے تو اِس جعلسازی پر از خود نوٹس توبنتا ہے لیکن انتہائی محترم چیف صاحب آجکل انتہائی مصروف ہیں اِس لیے ہم اُنہیں تنگ نہیں کر سکتے۔ ہمیں یقین ہے کہ فوج اپنے سابقہ چیف کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں تو”بوٹوں” کی کچھ کچھ آوازیں بھی سنائی دینے لگی ہیں لیکن اپنے شیخ رشید صاحب اندر سے ڈرے ، سہمے ہوئے لگتے ہیںکیونکہ اُن کے خیال میں ”فوج نے ستّو پیئے ہوئے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے ( فلسفیانہ سوچ رکھنے والے جنرل محترم اشفاق پرویز کیانی کی موجودگی میں تو یقیناََ ایسا ہی ہے ) تو پھر شیخ صاحب کی پریشانی بجا ہے کیونکہ جب ہمارے کمانڈو نے ایمرجنسی کا نفاذ کیا تو اُس وقت شیخ صاحب بھی وزیر با تدبیر تھے۔
اُنہوں نے توبہت پہلے سے ایسے 881 افراد کی لِسٹ تیار کر رکھی ہے جن پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے اور اُس لسٹ میں اُن کا اپنا نامِ نامی اسمِ گرامی بھی موجود ہے ۔شیخ صاحب اِس لسٹ میں اپنا نام اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں ۔شیخ صاحب کو یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ اُن کی پارٹی نے نیٹو سپلائی روکنے کے لیے تحریکِ انصاف کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اب اگر وہ بھی آرٹیکل 6 میں دھر لیے گئے تو نیٹو سپلائی کون روکے گا ؟۔یہ نیٹو سپلائی کا روکنا بھی ہم ”سونامیوں” کی”چھیڑ” بن کے رہ گیا ہے ۔کچھ بَد فطرت کہتے ہیں کہ پہلے خیبر پختونخواہ کی حکومت نے حکومتی سطح پرنیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان کیا پھر پتہ نہیں مَن میں کی آئی کہ نیٹو سپلائی کی بندش کو تحریکِ انصاف تک محدود کر دیا گیا۔ پہلے کہا گیا کہ 20 نومبرکے بعد کوئی کنٹینر گزرنے ہی نہیں دیا جائے گا ، پھر کہا کہ 20 نومبرکو ایک دن کا دھرنا دیا جائے گا۔
اب 20 کی بجائے 23 نومبر کہ سانحۂ راولپنڈی ہو گیا ہے۔ مجھے کسی نے کہا کہ سونامیوں کو شکر کرنا چاہیے کہ اُن کے کپتان صاحب نے یہ نہیں کہہ دیا کہ سعودی عرب میں چونکہ چار حاجی وفات پا گئے ہیں اِس لیے دھرنا کینسل۔ میرا جی تو چاہا کہ اُس کا مُنہ توڑ دوں لیکن پھر سوچا کہ ٹوئیٹر پر اُس کو جواب دوں گی۔ اُس احمق کو کون سمجھائے کہ دھرنے کے لیے تو سارے بندے ہم نے پنڈی، لاہور سے لے کر جانے تھے۔اب اگر پنڈی میں حالات خراب ہو گئے ہیں تو دھرنا کیا اُس کا باپ دے گا۔
ایک بَد باطن نے مجھے ایک لطیفہ سنایا جسے سُن کر پہلے تو میں لطف اندوز ہوتی رہی لیکن آخر میں اُس نے محترم جاوید چوہدری صاحب کے کالموں کی طرح جو نتیجہ نکالا اُس نے مجھے آگ بگولا کر دیا۔ اُس نے کہا کہ ایک زمیندار کے گھر میں ایک میراثی آیا۔ زمیندار نے اُس کی بڑی آؤ بھگت کی اور اپنی بیوی سے کہا کہ کل جو بکرے کا گوشت آیا تھا وہ جلدی سے پکا دے۔ بیوی نے کہا کہ وہ گوشت تو ختم ہو چکا ہے۔ زمیندار نے کہا ”اچھا تو مرغ پکا دو۔ بیوی نے کہا ”اب اندھیرا ہو چکا ہے، مرغ کہاں سے آئے گا۔ زمیندار نے کہا ”مہمان کو بھوک لگی ہے، چلو دال ہی پکا دو۔ بیوی بولی ”گھر میں تو دال بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی تین چار گھنٹے بھگوئے بغیر دال پکتی نہیں۔ زمیندار نے کہا ”اچھا تو پیاز میں نمک مرچ ڈال کر پیس لو لیکن جلدی کرو۔ میراثی جو پاس بیٹھا سب کچھ سُن رہا تھا اچانک بول اُٹھا ”جیہڑا ایس توں مُکرے او کافر ہو کے مرے۔ اُس واقف کار نے لطیفہ سنانے کے بعد کہا ”اپنے کپتان صاحب کو کہنا کہ اب 23 نومبر سے نہ مُکرے۔