وطن عزیز پاکستان میں اس وقت تقریبا 2,45,682 تعلیمی ادارے ہیں 7,96,096 مربع کلو میڑ کا رقبہ رکھنے والے ملک میں اتنے اداروں کا مطلب ہے ہر تین کلو میڑ بعد صرف ایک ادارہ، ایک اندازے کے مطابق ان میں سے بھی 33 فیصد غیر سرکاری یعنی Private ادارے ہیں جن کی کل تعداد 81894 بنتی ہے مطلب گورنمنٹ کی جانب سے تقریباہر 4.50 مربع کلومیڑ پر صرف ایک ادارہ، ان میں سے بھی ہر چوتھا سکول یا تو کسی چودھری، ملک، وڈیرے کا مہمان خانہ ہے یا تو پھر اساتذہ کی کمی کا شکار، لولے لنگڑے بقیہ سکول، کالجوں کی حالت ہی کچھ ایسی ہے کہ دل رونے کو آجائے، 17.764 سکولوں کی تو عمارت ہی نہیں ننھے پھول کبھی درختوں کے نیچے پڑھنے پر مجبور ہیں تو کبھی کھلے آسمان تلے۔ 61,274 سکولوں کی بیرونی دیوار ہی نہیں، بچے جب چاہیں آسانی سے بھاگ سکتے ہیں، دل بہلانے کے لیے سڑک سے گزرنے والوں کا نظارہ بھی خوب کر لیتے ہونگے 54,996 سکول ایسے ہیں جن میں زندگی کی بنیادی ضرورت پانی ہی میسر نہیں، خداجانے مستقبل کے معمار اور والدین کی آنکھ کے تارے کیسے گزارہ کرتے ہونگے۔
شاید کبھی گھر سے پانی ساتھ لاکر تو کبھی قریبی جگہ سے پی کر(میں نے خود ایسے ہی اداروںمیں پڑھ کر ہوش سنبھالا ہے) ان سب حالات کا اور کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو ، نجی اداروں کے مالکان کو ضرر ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ بھاری فیس اور کثیر اخراجات ہونے کے باجود اکثر والدین اپنے بچوں کو نجی ادارں میں بھیجنے پر مجبور ہیں بنیادی سہولیات نظم و ضبط اور نسبتا بہتر نتائج کی وجہ سے ان اداروں نے بھی اپنی اک منفرد پہچان بنالی ہے ،میں خودگزشتہ سات سالوں سے ایک نجی تعلیمی ادارے سے منسلک ہوں،سات سالہ پڑھانے کی مدت میں نگاہوں سے ہر قسم کے بچے گزرے ،باادب، شراتی، بے ادب ،ذہین، محنتی اور کچھ توحیران کن صلاحیتون کے مالک بھی. اسی دران کئی بچوں کو ہنستے ہوئے بھی دیکھا اور روتے ہوے بھی ،مگر وہ آنسو جو دیکھنے والوں کو بھی افسردہ کر دیں فقط ان بچوں کے ہوتے ہیں جو دل سے محنت کرتے ہیں لیکن کبھی بکھار سخت مقابلہ ہونے کی واجہ سے فقط چند نمبرں کی کمی کی وجہ سے پوزیشن نہیں لے سکتے ، بحرحال یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ مقابلہ بھی تو سخت ہوتاہے حیرت تو تب ہوتی ہے جب گیند Board of Intermediate and Secondary Education کی کورٹ میں چلی جائے کبھی باصلا حیت طلبائ/و طالبات پیچھے رہ جاتے ہیں تو کبھی سست سے سست بچے بہت آگے نکل جاتے ہیں، اس سال ایک بار پھر ایسے ہی عجیب نتائج دیکھے تو حیران رہ گیا، اور ذہن میں کئی سوالات گردش کرنے لگے۔
Education
میں جماعت نہم کے بچوں کو سالانہ امتحانات کی تیاری کرا رہا تھابچوں کو رٹا کلچر اور محض حفظ کرنا چھوڑ کر Conceptual Study کرنے اور Creative Mind بنانے کادرس بار بار دیتارہا، چو نکہ لڑکیوں میں لڑکوں کی نسبت محنت کی عادت زیادہ ہے اس لیے باتوں پر عمل بھی خوب ہونے لگا، بچوں میں سمجھداری اور خود اعتمادی اس حد تک محسوس ہونے لگی کہ کسی کو مستقبل کا ڈاکٹر تو کسی کو پروفیسر کہنے لگا اسی جماعت میںایک ایسی بچی بھی پڑھتی تھی جس کی پہچان محض اس کی خاموشی اور سستی تھی ،نہ کبھی Debate میں حصہ لیتی ار نہ کسی Competition میں .کسی ٹیسٹ میں اگر دس لائن سے زیادہ لکھ لیتی تو بڑی بات سمجھتے اور سب حوصلہ افزائی بھی کرتے ، ہم جماعت ازراہ مزاق کبھی کبھار اسے خلائی مخلوق یا Alien بلاتے تھے،حال ہی میں جب بزریعہ انڑنیٹ سالانہ نتائج جاری کئے گئے تو سب حیران رہ گئے ، AlienنےA+ 80% سے زیادہ مارکس لیکر سب کو پیچھے چھوڑدیا۔یہ محض ایک اتفاقیہ حاد ثہ نہیں بلکہ بہت بڑی فکر کی بات ہے جو کئی سوالات کو جنم دیتی ، کیا ایساہر جماعت میں ہوتا ہے؟ کیا ہر جگہ محنتی بچے پیچھے رہ جاتے ہیں ؟آخر یہ سب ہوتا کیسے ہے ؟وغیرہ وغیرہ
سچائی کا ایک ہی راستہ ہوتا ہے پر برائی کے بہت سے ، اس طرح کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یا تو مالدار لدین کمزر بچوں کی جگہ Duplicate بٹھاتے ہونگے یا اپنے لمبے ہاتھوں سے بورڈ تک رسائی حاصل کر کے نتائج خفیہ تبدیل کراتے ہونگے ، یا پھر بچوں کو خودتاریک راستے (نکل) پر چلنے کی ترغیب دے کرخوب پرچے بھرواتے ہونگے اس طرح کے نتائج کا ایسے لوگوں پر فرق پڑے یا نہ پڑے اس مزدور پر ضرور اثر پڑاہوگا جو دھوپ او ر سختی کی پروا ہ کیے بغیر بچوں کے روشن مستقبل کیلئے محنت کرتا ہے.اس ماں کے آ نسو بھی یقنا نکلے ہونگے جس نے گہنے بیچ کر بچوں کی فیس ادا کی ہوگی ،وہ ہونہار بچے بھی ضرور روئے ہونگے جنہوںنے آنکھوں مین روشن مستقبل کے خواب سجائے طلوع آفتاب تک کتابیں پڑھی ہونگی اکثر بچے اس طرح کے نتائج دیکھ کر دل برداشتہ ہو جاتے ہیں ،کچھ تو پڑھائی ہی ترک کر دیتے ہیں ،کچھ محنت کا راستہ چھوڑ کرCopy Culture کا حصہ بن جاتے ہیں اور کہیں توخود کشی کے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں۔
Education Department
ہم بہت سی باتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں پر شاید ہم اس بات سے غافل ہیں کہ یہی خاموشی ہماری آنے و الی نسلوں کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔ نوجوان کالم نگار آ صف لانگو جعفرآبادی نے کیا خوب کہا ہے ” اگر Copy Culture سے ہی تعلیم کو پاک نہیں کیا گیا تو تعلیمی ادارے اور اساتذہ کی تنخواہوں کی شکل میں کھربوں روپیہ خرچ کرنے اگر اس قوم کو لئے فنی تعلیم دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اب ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ہے ڈگری لئے دربدر ٹھوکریں کھانے والوں کی فہرست بہت لمبی ہے اور جعلی ڈگری اور کاپی کلچر لوگ قوم کی گمراہی کے سوا کچھ نہیں دے سکتے ہیں۔
محکمہ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی و تنزلی کی وجہ بنتا ہے اسی لیے اس محکمے سے ان کالی بھیڑں کا صفایہ اشد ضرری ہے جو اسے آلودہ کر رہے ہیں، میرٹ کو یقینی بنایا جائے کیونکہ قابل اساتذہ ہی روشن مستقبل کے ضامن ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو 67 سال ہم ضائع کر چکے ہیں، مزید 67 سال گزرنے کے بعد بھی وہیں کھڑے ہونگے جہاں آج ہیں کم مارکس ہونے کی وجہ سے بہت سے باصلاحیت طلباء و طالبات کو اچھے اعلی اداروں میں داخلہ نہیں مل سکے گا ارو نہ ہی آسانی سے ملازمت نتیجہ یہی کہ آج کے نالائق کل اسی طرح چور دروازے کا استعمال کر کے بڑے بڑے اداروں کے سربراہ بن بیٹھیں گیااور ملک کا اصل سر مایہ (باصلاحیت طلباء و طالبات) یا تو جرا ئم کی دنیا کا حصہ بن چکے ہونگے یا پھر خاموش تماشائی! ذرا سوچیے اور خود فیصلہ کیجئے ،کیا اس طرح ہم ترقی کر سکتے ہیں؟