بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 میں تبدیلی کر کے اپنی تباہی اور بربادی خود اپنے ہی ہاتھوں لکھ لی ہے اور اب بھارت اپنی ناکام پالیسیوں اور دہشت گردی کی بدولت ٹوٹتا ہوا نظر آرہا ہے ایک طرف مقبوضہ کشمیر انکے تسلط سے آزاد ہو جائیگا تو دوسری طرف سکھوں نے مودی کوجو تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے اسکے باعث بھارت کے اندر بہت سے ملک بن جائیں گے کیونکہ مودی کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں ہی بھارت کو توڑنے کے لیے کافی ہیں اس وقت مقبوضہ کشمیر کی پوری قیادت گرفتار ہے روایتی طو پر بھارت کے حامی افراد جیسے عمرعبداللہ اورمحبوبہ مفتی بھی گرفتار ہیں بھارتی جنونی ٹولہ طاقت اور ظلم سے کشمیریوں کو ان کے جائز قانونی حق سے محروم نہیں کر سکتا،مقبوضہ کشمیر مسلمہ عالمی تنازعہ ہے، مودی حکومت اسے داخلی مسئلہ کے طورپر حل کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی، فلسطین کے بعد کشمیر کے معاملے میں بھارت نے صہیونی رویہ اپنایا ہے جس سے اقوام متحدہ کی ساکھ اور مقام سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ مودی حکومت نے عالمی اور علاقائی امن کو تباہ کرنے کا بل پیش کیاہے جس کانتیجہ خونریزی کی صورت میں نکل سکتا ہے دور کی نظر رکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ صرف مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کی دیرہے اسکے بعد تو پھرجیسے بھارت میں آزادیوں کا ایک نہ رکھنے والا کھیل شروع ہو جائیگا۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جتنی قربانیاں ہمارے کشمیری بھائیوں نے دی ہے اسکی شائد ہی کہیں مثال ہو مقبوضہ جموں کشمیر میں شہداء کے 700 قبرستان اہل کشمیر کی جرات واستقامت،شجاعت،عظمت اور آزادی کے جذبے کی لگن کا مظہر ہے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قتل، تشدد، زنا بالجبر، غیر قانونی گرفتاریاں، غیر قانونی چھاپے،پولیس مقابلے اور جلاؤگھیراؤ روزمرہ کا معمول ہیں آزادی کا مطالبہ کرنے والے حریت پسندوں کو کچلنے کے لئے موجود 8 لاکھ ریاستی اہلکار گویا جنونی بن چکے ہیں سات ہزار سے زائد بے شناخت اور اجتماعی قبریں دریافت ہوچکی ہیں خطے میں اتنی بڑی تعداد میں جدید ترین اور انتہائی مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کی تعیناتی کی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ملتی سوا لاکھ کشمیری مسلمان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ 30ہزار سے زائد خواتین بیوہ ایک لاکھ سات ہزار چار سو بچے یتیم اور ایک لاکھ سے زائد گھر خاکستر ہوچکے ہیں اور اسکے باوجود بھارت اپنی ناکامیوں اور بو کھلاہٹ میں اندھاہوچکاہے اور سرعام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہاہے اتنے بڑے بڑے مظالم پر اب تو عالمی دینا کو بھارت کی جانب سے ایل او سی پر نہتے شہریوں پر کلسٹر بم کے استعمال کا فوری نوٹس لینا چاہیے ایل او سی پر بمباری بھارتیوں کامعمول بن چکی ہے اور پاکستان بدستور صبرو تحمل سے اسلیے کام لے رہاہے تاکہ خطے میں امن کی فضاکو قائم رکھا جا سکے۔
اس لیے بھارت اب مزید پاکستان کے صبر کا امتحان نہ لے اور بھارت کو 27فروری کی تاریخ یاد رکھنی چاہیے اور اس امر کو ذہن نشین کر لیناچاہیے کہ پاکستان اپنے دفاع پر کسی قسم کا سجھوتہ نہیں کرے گا جبکہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے سے متعلق اقدامات کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوگے اور مقبوضہ کشمیر کے غیور اور بہادر کشمیری بھارت کی جانب سے اس قسم کے اقدامات کی بھرپور مزاحمت کریں گے مقبوضہ کشمیر میں مزید70ہزار قابض فوج کی تعداد بڑھانے سے بھارت اپنے مذموم مقاصد کسی صورت حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ کشمیریوں کے جذبہ حریت کا مقابلہ کسی صورت بھی افواج کی عددی تعداد سے نہیں کیا جاسکتا مقبوضہ وادی میں جہاں بھارت کی آٹھ لاکھ افوا ج کشمیریوں کے جذبہ حریت کوختم نہیں کر سکتی وہاں 70 ہزار افواج کا اضافہ بھی کشمیریوں کے جذبہ حریت کو زیر نہیں کرسکتا اور بھارت کو آخر کارکشمیریوں کے حق خودارایت کے جذبے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اب اس ترمیم کے حوالہ سے بتاتا چلو کہ یہ ہے کہ جس کے زریعے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق خصوصی قانون کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے وزیر داخلہ امیت شاہ کے زریعے پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل پیش کر دیا۔
اس آرٹیکل کے تحت کشمیریوں کو کچھ حقوق حاصل تھے اور اس کے ختم ہونے سے اب کشمیری ان چند حقوق سے بھی محروم ہوجائیں گے بھارتی پارلیمنٹ میں اجلاس کے دوران اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی جانب سے امن و امان کی صورتحال داو پر لگانے پر شدید احتجاج کیا، اپوزیشن رہنماوں نے سپیکر کے ڈائس کا گھیراو کر لیا اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔بھارتی وزیر داخلہ کی جانب سے پارلیمنٹ میں آرٹیکل 35 اے، اور 370 منسوخ کرنے کا شوشو بھی چھوڑا گیا۔ آرٹیکل 35 اے، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا حصہ ہے۔ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل ہے۔آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے نہ ہی ملازمتوں پر حق رکھتا ہے۔
یہی آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا ہے۔ اسے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بھارت کشمیر کے خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کر رہا ہے۔آرٹیکل 370 کی وجہ سے صرف تین ہی معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس ہیں جن میں سیکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی شامل ہیں۔ باقی تمام اختیارات جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہیں۔بھارت اب عدالتوں کے ذریعے اس آرٹیکل کو ختم کر کے کشمیریت کی پہچان ختم کرنا اور اس متنازعہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو لانا چاہتا ہے اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں کشمیر کے حوالے سے ان قرار دادوں کی رہی سہی اہمیت ختم ہونے کا بھی اندیشہ ہے جن کے مطابق جموں کشمیر کو متنازعہ قرار دیا گیا تھا اور پاکستان اور بھارت کو کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلیے رائے شماری کا ماحول بنا کر دیا جائے۔اسی حوالہ سے مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے اسے بھارت کے لیے یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کا آرٹیکل 370 یکطرفہ ختم کرنا غیرقانونی اور غیرآئینی ہے اور اس فیصلے سے 1947 میں مقبوضہ کشمیر کی لیڈرشپ کا دو قومی نظریہ کو ٹھکراتے ہوئے بھارت سے الحاق کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا اور اس فیصلہ سے برصغیر سے تباہ کن نتائج ہوں گے۔