تحریر : میاں وقاص ظہیر پاناما کیس کے دلائل ختم ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا، جو کسی بھی وقت بجلی بن کر عوام یا حکمران خاندان پر گر سکتا ہے ،بظاہر شواہد تو یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں نئی تاریخ بننے جارہی ہے ، لیکن یہاں معجزاتی تبدیلی کے نقطے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کے دو قابل احترام جج تو پہلے ہی وزیر اعظم کے صادق اور امین ہونے پر بڑ ا سوالیہ نشان لگاچکے ، باقی کسر واجد ضیا ءکی قیاد ت میں کام کرنے والی جے آئی ٹی کی ٹیم نے نکال دی، جنہوں نے ایسی ایسی نئی چیزیں پاناما کیس میں شامل کیں کہ عوام کی آنکھیں کھلنے کے ساتھ کان بھی کھل گئے کہ یہ بہروپئے کس کس طرح ملکی پیسہ لوٹ کر باہر بھیجتے ہیں او رپھر عدالت عظمیٰ کے قابل احترام ججز کے سامنے منی ٹریل کا ریکارڈ بھی پیش نہیں کرتے ،ضرورت پڑنے پر جعلی دستاویزات سے عدالت گو گمراہ کرنے اور پکڑے جانے پر کلریکل غلطی جیسے الفاظ استعمال کرکے بچنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
اس کیس کا فیصلہ جو بھی ہو لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ن لیگ ایک جماعت نہیں مافیا کا نام ہے جو ظفر حجازی جیسے افراد کو لالچ اور دباﺅ ڈال کر ریکارڈ ٹمپرنگ پر مجبور کرتی ہے ، آج ظفر حجازی راولپنڈی کی جیل میں یہ کم ازکم کال کوٹھری کی تنہائی میں ضرور سوچتے ہوں گے کہ اس مافیا نے کس طرح میری عزت ونفس کے ساتھ کھلواڑ کیااور میرا نام تاریخ کے اوراق میں ایک بدکردار شخص کے طور پر درج کروایا ، ہو سکتا ہے ظفرحجازی نے ساری زندگی معزز بن کر اپنے حلقہ احباب میں گزاری ہو ، لیکن جو داغ ان کی شخصیت پر لگ گیا انہیں تاریخ کبھی نہیں دھونے دے گی۔
یہ خاکسار! ہمیشہ سے بھی زندگی کے ارتقا اور بقاءپر نظر ثانی کرتا ہے تو کبھی کبھی خود سے ہم کلام ہو کر سوال بھی پوچھتا ہے کہ انسان نے اپنی اوقات کاغذ کے چند ٹکروں تک کیوں محدود رکھ لی یا اس اعلیٰ عہدے تک جس سے برا فریبی کوئی نہیں ، کیونکہ اسے زندگی کی طرح ختم ہونا ہے ، پھر کیوں ہم مافیا کے دست راست بن کر ان کی اشاروں پر ناچاتے ہیں یہ سب جانے کے باوجود کہ یہ ہمیں ضرورت پڑنے پر ٹشو کی طرح استعمال کرکے پھینک دے گئے اور کبھی ہماری خبر گیری کو بھی نہیں آئے گے، بہر حال میری عدالت عظمیٰ نے معصومانہ سی درخواست ہے کہ اب ہمیں اپنی دھرتی کی بقاءاور استحکام کیلئے کرپٹ افراد کو کیفرکردار تک پہنچانے کا فیصلہ کرنا ہوگا ، اس فیصلہ میں کوئی مقدس گائے نہیں ہوگی ، کوئی سیاستدان ہو ، بیوروکریٹ، جج، مقامی نمائندہ ، صحافی ، تاجریا کوئی نجی ادارے کا سربراہ اب کسی جرم کی معافی نہیں ملنی چاہئے ، پلی بارگین جیسے گندے ترین آپشن کو ختم ہونا چاہئے ، ں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ جس ملک کے وزیر خزانہ کے اثاثے15 سال میں 91لاکھ سے بڑھ کر83کروڑ تک پہنچ جائیں تو ہی غریب عوام کو اس گیڈرسنگی ، کالاجادو، تعویز یا منتر کے بارے میں بتا دیں جو بیچارے غربت کی وجہ نے اپنے بچوں کو زہر دیں نہ ہی ان کے گلے گاٹیںاورفروخت کیلئے سربازار نہ نکلیں۔
آج باشعور عوام کو اس سوال کا جواب بھی ضرورمل چکا ہوگا کہ اسحاق ڈار کی رپورٹ پر آئی ایم ایف نے پاکستان کو جرمانہ کیوں کیا تھا ،جب ہمارے خزانہ کے سفید وسیاہ کا مالک ہی کرگٹ کی طرح رنگ بدلے تو عالمی سطح پر وہ کس طرح ملک وقوم کا وقار بلند کرسکتا ہے، کوئی موقع ایسا بتا دیں کہ ہماری عالمی دنیا میں جگ ہنسانی نہیں ہوئی ،ہمارے اوپر دہشتگردی ، دھوکہ بازبرائے فروخت قوم کے علاوہ ناجانے کن کن القاب سے لکھا اور پکارا گیا ، بس کردیں!ہم اتنے گندے نہیں جتنے بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے ہیں۔
ہمارے خون ہماری قربانیوں کی ضرورت پڑے تو اس پاک دھرتی کی بنیادوں میںہم دفن کرنے کیلئے تیار جس طرح ہماری آباﺅاجداد نے اس کی بنیادوں کو اپنی جانیں اورمال دفن کرکے اسے بنایا، یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے ، اس مرحلے میں تو آئین کے آرٹیکل 62,63کا نفاذ ہونا چاہئے ، اگر نہیں ہوتا تو بتائیں کہ ،63 کوئی شوپیس یا صرف قانون کی کتابوں کی زینت ہے۔