لندن (جیوڈیسک) آرٹیفیشل انٹیلی جنس، کوئی انوکھی چیز نہیں رہی۔یہ ٹیکنالوجی موبائل فون سے لے کر جنگی طیاروں تک، ہر جگہ استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن اب سائنسدان اسے ایک خطرہ قرار دینے لگے ہیں۔
کیا دماغ کی طرح سوچنے والی مشین ،دماغ سے آگے نکل جائے گی۔ انسان کی اپنی تخلیق یعنی مصنوعی زہانت خود اس کے لیے خطرہ ہے مصنوعی ذہانت یا آرٹفیشل انٹیلی جنس وہ ٹیکنالوجی ہے جو انسانوں کی طرح بولنے ،سننے ، کام انجام دینے کی صلاحیت پیدا کر سکے۔
دنیا بھر میں روبوٹس کی شکل میں اس ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال جاری ہے، یہ ٹیکنالوجی گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ مزید جدت اختیار کر رہی ہے۔ روبوٹس کم وبیش انسانوں کی طرح بول بھی رہے ہیں۔ کام بھی کررہے ہیں یہاں تک خفیہ آپریشنز میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔
مشہور سائنسدان اور ماہر طبیعات اسٹیفن ہاکنگ اس ٹیکنالوجی یعنی مصنوعی زہانت کو انسانوں کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس وقت کا ڈر ہے جب یہ سوچنے والی مشینیں انسانی زہن سے بھی زیادہ تیز کام کرنے لگیں اور انسان س زیادہ باصلاحیت ہوکر انسان سے زیادہ مکمل اور بہترین کام انجام دینے لگیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے اسٹیفین ہاکنگ نے کہا کہ مکمل مصنوعی ذہانت نسلِ انسانی کے خاتمے کی دستک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ خود انسان کی تخلیق یعنی مصنوعی زہانت کی ترقی انسان کے ہم پلہ یا پھر اس سے برتر ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ ’انسان جو قدرتی طور پر سست نشو نما کی وجہ سے محدود ہے اس نظام کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔ دماغی بیماری میں مبتلا اسٹیون ہاکنگ گفتگو کے لیے جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے۔
لیکن باقی سائنسدان ان کے اس بیان سے اتفاق نہیں کرتے ان کے خیال میں دماغ کی طرح سوچنے والی یہ مشین انسان کے کنٹرول میں ہی رہے گی۔