لوگوں کو اچھی غذا اور ورزش کے علاوہ اپنی فہرست میں ایک صحت مند عادت کو بھی شامل کرنے پر غور کرنا چاہیئے کہ وہ رات میں گھر کی بتیاں بجھا دیں، یہ تجویز ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے پیش کی ہے جنھیں مصنوعی روشنی کے صحت پر منفی اثرات ملے ہیں۔
جریدہ ‘سیل پریس جرنل’ میں شائع ہونے والی تازہ ترین تحقیق میں محققین نےخبردار کیا ہے کہ مصنوعی روشنیاں ہمیں جسمانی طور پر کمزور کر سکتی ہیں اور پٹھو ں اور ہڈیوں کی بیماریوں میں مبتلا کر نے کا باعث بن سکتی ہیں۔
جانوروں پر کی جانے والی طبی تحقیق کی اہم مصنف یوہانا مائر تھیں جو ہالینڈ کی لیڈین یونیورسٹی میڈیکل سینٹر سے منسلک ہیں، وہ اپنے تحقیقی پیپر میں لکھتی ہیں کہ ہمیں ایسا لگتا تھا کہ روشنی اور اندھیرے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے یا صحت متاثر نہیں ہوتی ہے لیکن، دنیا بھر کی تجربہ گاہوں سے جمع کیے جانے والے مطالعاتی جائزے سب ایک ہی سمت میں اشارہ کر رہے تھے کہ، یہ بات درست نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ماحولیاتی ردھم یا دن اور رات کے قدرتی چکر ہماری صحت کے لیے ضروری ہے جبکہ دن اور رات کے قدرتی چکر کی عدم موجودگی کا نتیجہ متعدد صحت کے مسائل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ان صحت کے مسائل میں مدافعتی نظام کی سوزش، پٹھوں کا نقصان، اور ہڈیوں کی بیماریوں کی ابتدائی علامات شامل ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق مطالعے میں ظاہر ہونے والی جسمانی تبدیلیاں کمزوری کی طرف اشارہ کر رہی تھیں جو عام طور پر زیادہ عمر والے جانوروں اور انسانوں میں دیکھی جاتی ہے تاہم محققین کو وہاں ایک حوصلہ افزا بات بھی نظر آئی ہے۔
محقق یوہانا مائر نے کہا کہ خوشخبری یہ ہےکہ ہم پر یہ بھی ظاہر ہوا کہ صحت پر ہونے والے یہ منفی اثرات واپس ہو سکتے ہیں جب قدرتی دن اور رات کے چکر کو بحال کیا جاتا ہے۔
دن اور رات کے چکر سے محرومی اور بیماریوں کے درمیان تعلقات پر تحقیقات کے لیے محقق مائر اور ان کے ساتھیوں نے چوہوں کو مسلسل 24 ہفتوں تک مصنوعی روشنی کی زد میں رکھا اور ان کی صحت کا جائزہ لیا۔
جانوروں کے دماغ کی سرگرمیوں کے مطالعے کے نتیجے سے ظاہر ہوا کہ مسلسل روشنی نے دماغ کے مرکزی سرکیڈین ردھم کے عام پیٹرن کو متاثر کیا تھا جبکہ دن اور رات کے قدرتی عمل میں مداخلت اور سرکیڈین ردھم کے لیے رکاوٹ نے جانوروں میں پٹھوں کے نقصان کو ظاہر کیا تھا۔
محققین نے جب چوہوں کو واپس 2 ہفتوں کے لیے قدرتی ماحول میں رکھا تو سرکیڈین پیس میکر میں ‘ایس سی این’ نیورانز تیزی سے نارمل ردھم میں واپس آ گئے اور جانوروں کی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات ختم ہونے لگے اور ان کی صحت بہتر ہو گئی۔
محققین کے مطابق دنیا کی 75 فیصد آبادی رات میں مصنوعی روشنیوں کی زد میں ہوتی ہے خاص طور، پر مصنوعی روشنیوں کی نمائش اسپتالوں اور نگہداشت کے یونٹ میں زیادہ عام ہے جبکہ رات کی نوکری کرنے والے افراد بھی مسلسل روشنی میں رہتے ہیں۔
محققین نے تجویز کیا کہ مصنوعی روشنی کے مسلسل استعمال کے لحاظ سے خاص طور پر معمر اور کمزور افراد کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔