کسی دور میں پاکستانی فلموں کے ساتھ تھیٹر میں بھی گہما گہمی عروج پر ہوا کرتی تھی لوگ تھیٹر میں اپنی فیملیز کو لاکر خود بھی ہسنتے ہنساتے تھے اور اپنے ساتھ اپنے رفقاء کو بھی شریک کرلیتے تھے مگر اس کے بعدآہستہ آہستہ انڈین فلموں کی دیکھا دیکھی پاکستانی فلموں میں بھی بے ہودگی زیادہ اور معیاری پن کم آنے لگاتو اس کا اثر تھیٹر پر بھی پڑنے لگایعنی بے ہودہ جگتوں اور بے حیائی کے کلمات کے تسلسل نے فلم انڈسٹری کی طرح تھیٹر کو بھی ویران کردیاان ڈراموں میں اصلاحی پہلوؤں کاخاتمہ ہوگیا اور ان کی جگہ اداکارؤں کو جو لباس پہناکران پر جملے کسنے کا رواج شروع ہوااس کی وجہ سے لوگوں نے نہ صرف اپنی فیملی کو تھیٹر کے منچ سے دورکردیا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تھیٹر شریف اور خاندانی لوگوں کی پہنچ سے کوسوں دور ہوکررہ گیا ،عمر شریف کے جانے کے بعد کوئی بھی ایسا دکھائی نہ دیتاتھا جو ایک بارپھر سے تھیٹر کی رونقیں بحال کرتا تھیٹر جو کبھی خوشیوں کا گہواراہوا کرتاتھااور جس کے لیے گھر کے تقریباًتمام افراد ہی ہر نئے ڈرامے کو دیکھنے کی ضد کرتے تھے ان کی جگہ اب چھڑو اور بگڑے نواب زادوں نے لے لی یعنی تھیٹرصرف ان لوگوں کی توجہ بن کر رہ گیا جو عیاش قسم کے لوگ تھے جو فنکاروں کے فن کی قدرکرنے کی بجائے اپنی نشست سے اٹھ کران ہی پرفارمنس کرنے والے فنکاورں کو گالیاں تک دے دیتے تھے اس کا اثر یہ ہواہے کہ تھیٹر سے جڑے نئے نئے پروڈیوسر وں ڈائریکٹروں نے بجائے حالات کو سدھارنے کے الٹاان ہی منچلوں کے معیارمیں خود کو ڈھالنا شروع کر دیا۔
یعنی تھیٹر عوامی سطح سے نکل کر عیاشی کا اڈہ بن گیا،اور دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کا تماثیل تو کیا کراچی کا آرٹس کونسل اور گوجرانوالہ کے تھیٹرز بھی فیملی اور اصلاحی ڈراموں سے مکمل ہی محروم ہو کر رہ گئے ان میں سے بعض تھیٹرتو مکمل طورپر ہی تتلیوں اور بھنوروں کا ڈیرہ بن کر رہ گئے ،ایسے میں ایک کراچی کا نوجوان ایسا بھی تھا جس کی خواہش تھی کہ تھیٹر کی دنیا کو پھر سے اس انداز میں آبادکردیا جائے جو کبھی عمر شریف اور معین اخترکے دور میں ہوا کرتاتھا،اس نے اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کاجب عہد کیاتو ماحول کسی بھی لحاظ سے اس کے حق میں نہ تھا شوقین نوجوانوں میں بے ہودگی اس قدر سرائیت کرچکی تھی کہ وہ بے ہودہ جگتوں اور ڈانس کے بغیر بننے والے ڈرامے کو دیکھنے کاتصور بھی نہیں کرسکتے تھے یہ وہ وقت تھا جب کراچی میں آئے روزدہشت گردی سے درجنوں لوگ موت کی نیند سوجاتے تھے ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری لوٹ مار سمیت کونسا ایسا جرم تھا جو اس شہر قائد کا مقدرنہ تھا مگر ان تمام معاملات اور حالات کے باوجود یہ نوجوان اپنا تھیٹر کی بحالی اور اس شہر کے لوگوں کے مایوس چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کا عہد کرچکاتھا اس میں چھپا ایک بہترین ڈاریکٹر ،پروڈیوسر اور سب سے بڑھ کر رائیٹربہت بے چین تھا کہ وہ شہر قائد کی گلی محلوں میں پھیلے اندھیروں میں اپنا خون جگر دیکر بھی مسکراہٹوں کا اجالا کرنا پٖڑا تو وہ اس سے دریغ نہیں کریگا،یہ2010 کی بات ہے جب کراچی میں آرٹس کونسل کی رونقیں مدھم پڑچکی تھی آرٹس کونسل کی روشنیاں جلانے کے لیے جب اسی مردمجاھد نوجوان جس کا نام زاہد شاہ تھا میدان میں آکر کمر کس لی ، ان دنوں میں جو خوف کراچی کی عوام کے دلوں میں تھا وہ اس قدر گھر کرچکاتھا کہ لوگ اگر کچھ دیر گھر پر نہیں پہنچتے تھے تو ماؤں کے دلوں میں ایک دھڑکا سے دل میں لگ جاتاتھاکہ اللہ خیرہی کرے نہ جانے میرا بیٹا کہاں اور کس حال میں ہو گا۔
ایسی صورتحال میں اسی نوجوان نے جس کا عہد اصلاحی ڈراموں کا دور واپس لانے کے ساتھ یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کو اپنے ڈراموں کی مدد سے گھروں سے باہر نکالنے پر کامیاب ہوجائے گااسی لیے اس نے اپنے پہلے ہی ڈرامے کا نام بھی ایسا رکھا جس کا نام “امن کا چھکا ” تھا جس میں اس نوجوان نے لاہور اور دیگر شہرو ں سمیت کراچی کے فنکاروں کو ملاکر کام کیا ان فنکاروں میں لاہور سے تھیٹر کا ایک بڑا نام نسیم وکی،فلمسٹارنرگس،زوالقرنین حیدر،اظہر رنگیلا،عابدہ بیگ جبکہ کراچی سے مرحوم سکندرصنم ،زاکر مستانہ ،اختر شیرانی ،پرویز صدیقی ،شکیل شاہ اور دیگر کو کاسٹ کیا،کراچی میں بدامنی کے باوجود لاہور تھیٹر یہ بڑے نام جن میں نسیم اور نرگس اس وقت کے بھی لیجنڈ تھے کراچی آئے جن کا مقصد کراچی میں پھیلی مایوسیوں کو ختم کرکے شہر قائد کی عوام کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنا تھا،اس ڈرامے کو کرتے وقت آرٹس کونسل کے روح رواں احمد شاہ اعجاز فاروقی نے اوپن ائیر تھیٹر بھی مفت دیا احمدشاہ کا شہر قائد کی رونقیں بحال کرنے میں ایک اہم کرداررہاہے انہوں نے ہمیشہ آرٹس کونسل کی تعمیروترقی والے لوگوں کو ہی اپنے ساتھ رکھاہے ،خیر یہ ڈرامہ اس قدر ہٹ ہواکہ زاہد شاہ کی کراچی تا خیبر تک دھوم مچ گئی کیونکہ جہاں ڈرامہ ہٹ ہوا وہاں ان بڑے بڑے آرٹسٹوں کو بھی ایک ہی پلیٹ فارم پر دیکھنے کے لیے بھی لوگوں نے تھیٹر کا رخ کیا،اس ڈرامے کے بعد نوجوان رائیٹر ڈائریکٹر زاہد شاہ کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور اس نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور ایسے ایسے ہٹ ڈرامے اس شہر کو دیئے جس کی کامیابی کے ریکارڈ توڑنے کی بجائے بہت سے لوگ خود زاہد شاہ کی جان کے دشمن بن گئے ،مگر بغیر کسی خوف وخطر کے بکرا کون بنے گا۔
کیسے مناؤ عید ،اوپر نیچے ڈرامے نکال دیے جس نے تھیڑمیں کھڑکی توڑ رش لیا جبکہ زاہد شاہ کا ایک چوتھا تھیٹر ڈرامہ بکربدتمیز جس میں فلمسٹار جان ریمبو نے خود اس ڈرامے میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیااس ڈرامے میں معروف کامیڈین حنیف راجہ کے کردارکو بھی خوب سراہا گیااور ایک خوبصورت اداکارہ شانزے کومتعارف کروایا جس میں کامیابی کے بعد مقبولیت کی نئی راہیں ملنا شروع ہوگئی ،کراچی کے لوگوں نے تمام خوف کے باوجود زاہد شاہ کے اصلاحی ڈراموں کو دیکھنے کے لیے آرٹس کونسل کا رخ کرنا شروع کردیاتھا،لوگ ان اصلاحی ڈراموں سے جہاں لطف اندوز ہوتے تھے وہاں بہت کچھ سیکھ کر بھی جاتے ، ان کا ایک ڈرامہ آج کا ہیروکون جس میں ہندوستان جاکر اپنی دھاک بٹھانے والے شکیل صدیقی،سلیم آفریدی ،پرویز صدیقی ،شکیل شاہ،نعیمہ گرج جیسے عظیم فنکاروں نے کام کیااس کے علاوہ ایک اسٹیج ڈرامہ “بیٹی رانی ” نے مقبولیت میں اپنے ہی ڈراموں کو پیچھے چھوڑ دیاجس نے 17ایوارڈ اپنے نام کیئے اور تاریخ میں پہلی بار اس ڈرا مے کی تین تاج پوشیاں بھی زاہد شاہ کے حصے میںآئی،اس کے بعد” ہم سب پاگل ہیں” اور پھر “پیاری ماں “جیسے اسٹیج ڈرامے نے شہریوں کو بار بار ڈرامہ دیکھنے پر مجبورکیا اس کی کاسٹ میں لیجنڈ منور سعید ،میڈم سنگیتا،راحیلہ آغاجیسے نامور فنکار شامل تھے جن کی اداکاریوں نے نہ صرف دیکھنے والوں کو ہنستے ہنستے رونے پر مجبورکیا بلکہ خود اس ڈرامے میں کام کرنے والے منور سعید نے زاہد شاہ کو گلے لگاکر دس ہزار انعام دیااور جو تاریخی کلمات اداکیئے وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
جبکہ میڈم سنگیتا اور راحیلہ آغا جیسے عظیم فنکاروں نے اس ڈرامے کو اپنی زندگی کا بہترین ڈرامہ قراردیا،ان کا ایک اور ڈرامہ عید کا چاند بھی تاریخی ہٹ ہوااور اس طرح زاہد شاہ کی کامیابیوں کا سفر چلتارہا،کیونکہ ان کامیابیوں میں جن مخلصانہ کوششوں کا عمل دخل تھا وہ سب کے سامنے تھاوہ ان ڈراموں میں صرف ایک رائیٹر ڈایکٹر ہی نہ تھا بلکہ وہ خود بھی اپنی بے مثال اداکاریوں کے جوہر دکھاتے رہے ہیں ، اس لیے ہر مشکل خود ہی آسانیوں میں ڈھلتی رہی ،مگر ان کا ایک اور شاہکار جو تھیٹر کی دنیا ہی میں نہیں بلکہ فلم نگری کے میدان میں بھی تہلکہ مچانے والا ہے اس کا نام ہے ” اسٹیشن ” اس ڈرامے میں بھی پاکستان کی اول درجے کی کاسٹ نے حصہ لیا ہواہے اس ڈرامے کی خوبی یہ ہے کہ ڈرامے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تھیٹر اور فلمی پردے کو ایک ساتھ رکھا گیا ہے یعنی دیکھنے والا ایک ٹکٹ میں دو مزے کریگایہ ایک ایسا ٹیکنکل ڈرامہ ہے جو تھیٹر کے ساتھ سینما فلم ساتھ ساتھ چلائے گا جس کی آوٹ ڈور شوٹنگ کودیکھتے ہوئے ایک اورلیجنڈ ولن اداکار شفقت چیمہ ہے جن کا کہنا ہے کہ انہیں ڈرامہ اسٹیشن میں کام نہ کرنے کا دکھ رہے گا ، امید ہے کہ ڈرامہ اسٹیشن فنکاروں کا “اسٹیشن ثابت ہوگا،اور جس طرح اس اسٹیشن پر کھڑی گاڑی میں سوار ہونے کے لیے اپنی زندگی کی942فلمیں بنانے والے شفقت چیمہ صاحب کی تشنگی باقی رہ گئی ہے اسی طرح بہت سے فنکاروں کا کھڑکی توڑ رش بھی اس اسٹیشن پر کھڑی گاڑی میں سوار ہونے کے لیے لائن میں لگاکھڑا ہوگاکہ چلواس ڈرامے میں کام نہ کرسکے تو کیاہوا کم ازکم بیٹھ کر تو دیکھ لیں گے ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظا رہے گا۔